پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 76 ہزار سے تجاوز کرگئی

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 76 ہزار سے تجاوز کرگئی

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 76 ہزار سے تجاوز کرگئی، 2030ء تک جدید گاڑیوں کی فروخت کا ہدف 30 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں الیکٹرک وہیکل پالیسی پر تفصیلی غور کے دوران چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پالیسی میں تضادات موجود ہیں کیونکہ بجٹ منظوری کے بعد ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس عائد کیا گیا جبکہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کو چھوٹ دی گئی۔

سیکریٹری صنعت و پیداوار نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے پالیسی سے اتفاق کیا ہے 1.4 ارب ڈالر کی فنانسنگ اور آئی ایف سی کی جانب سے 1.8 ملین ڈالر کی گرانٹ فراہم کی جا رہی ہے۔

سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کمیٹی کو بتایا کہ الیکٹریکل وہیکل پالیسی سے ایک ارب ڈالر کی تیل کی امپورٹ کی بچت ہوگی، پاکستانیوں کی صحت کے حوالے سے 45 کروڑ ڈالر لاگت میں کمی آئے گی، 2024 تک پاکستان میں 76 ہزار سے زیادہ الیکٹریکل وہیکل گاڑیاں ملک میں موجود ہیں۔

، الیکٹریکل وہیکل کی پیداوار کیلئے مختلف بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان آرہی ہیں، 2030ء تک الیکٹریکل گاڑیوں کی فروخت کا ہدف 30 فیصد رکھا گیا ہے، 3 ہزار چارجنگ اسٹیشنز قائم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اڑھائی لاکھ روپے کی الیکٹریکل موٹر سائیکل پر 80 ہزار روپے کی سبسڈی ہوگی، چارجنگ اسٹیشنز کیلئے یونٹ کی قیمت 92 روپے سے کم کرکے 39 روپے 7 پیسے مقرر کی گئی ہے، چارجنگ اسٹیشنز کے مالکان کو اس حوالے سے اختیار دیا گیا وہ اپنی قیمت وصول کرسکتے ہیں، چارجنگ اسٹیشنز کو ادارہ ریگولیٹ کرے گا۔

سیکریٹری صنعت و پیداوار نے بتایا کہ الیکٹرک موٹر سائیکل اور رکشا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اس سال ایک لاکھ کی تعداد میں دو اور تین وہیلرز الیکٹرک گاڑیوں کا ہدف مقرر ہے جس کے لیے سات گنا زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں پنجاب سے بہت زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں، مقامی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چارجنگ اسٹیشن کے لیے ریگولیشنز جاری کی جائیں گی اگلے ایک سال میں بیٹریاں بھی مقامی سطح پر تیار ہونا شروع جائیں گی، دو سال میں پارٹس کو 100 فیصد مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کی جائے گی اگر دو سال میں اسپیئر پارٹس کی مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ نہ ہوئی تو سبسڈی فراہم نہیں کی جائے گی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *