پشاور : خیبرپختونخوا میں دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع کو حفاظتی گاڑیوں کی شدید قلت کا سامنا ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں اور اہلکاروں کی حفاظت متاثر ہو رہی ہے۔ متعدد بلٹ پروف گاڑیاں ناقابلِ استعمال ہوچکی ہیں اور بعض مقامات پر ضرورت کے مقابلے میں انتہائی کم گاڑیاں دستیاب ہیں — ضلعی سطح پر صورتحال خاص طور پر تشویشناک ہے۔
سرکاری و غیر سرکاری ذرائع کے مطابق وفاق کی جانب سے عطیہ کی گئی پانچ بلٹ پروف گاڑیاں (تین پولیس کے لیے اور دو فرنٹیئر کور کے لیے) صوبائی حکومت نے وصول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کا مؤقف ہے کہ یہ گاڑیاں پرانی اور ناقابلِ استعمال ہیں اور ان کے استعمال سے پولیس کے لیے اضافی خطرات جنم لے سکتے ہیں۔
ایک اہلکار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران صوبے میں مجموعی طور پر 105 گاڑیاں مختلف اضلاع کو فراہم کی گئیں جن میں جیپیں، سنگل اور ڈبل کیبن گاڑیاں اور اے پی سیز شامل تھیں، مگر ان میں سے بیشتر عام گاڑیاں تھیں اور بلٹ پروف گاڑیوں کی تعداد نہایت کم رہی۔ صوبائی محکمۂ انتظامیہ کے معیار کے مطابق وی وی آئی پی پروٹوکول پول میں 75 گاڑیاں درکار ہیں، مگر موجودہ فہرست میں 10 سے کم گاڑیاں ہی قابلِ استعمال رہ گئی ہیں اور قواعد کے خلاف متعدد بڑی گاڑیاں غیر مجاز افراد کے زیرِ استعمال پائی گئیں۔
تاریخی حوالہ جات میں بتایا گیا ہے کہ 2010 میں امریکہ کی طرف سے فراہم کی گئی چار بی-6 لیول لینڈ کروزرز میں سے صرف چیف سیکرٹری کے اختیار میں موجود گاڑی فعال ہے، جبکہ باقی تین گاڑیوں کو ناقابلِ استعمال قرار دیا گیا۔ اسی طرح 2011 میں بلٹ پروف کی گئیں 11 لینڈ روور جیپوں میں سے سات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ 2014 میں صوبائی حکومت نے ٹویوٹا فرنٹیئر موٹرز پشاور سے چار وی-8 بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جس کی کل لاگت 14 کروڑ 50 لاکھ روپے بتائی گئی، مگر تکنیکی مسائل اور طویل تاخیر کے باعث حکومت نے انہیں وصول کرنے سے انکار کر دیا؛ دس سال بعد ان گاڑیوں کے شیشے اور ٹائر بھی اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔
ضلع ہنگو کی مثال اس بحران کی شدت واضح کرتی ہے جہاں ایک پورے ضلع کے لیے کم از کم 12 بلٹ پروف گاڑیوں کی ضرورت کے باوجود محض ایک گاڑی دستیاب ہے۔ رواں سال مختلف حملوں میں ایس پی آپریشن اسد زبیر سمیت چار اہلکار شہید اور پانچ زخمی ہو چکے ہیں۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ بعض اسٹیشنز میں گاڑیوں کے صرف پچھلے حصے کو بلٹ پروف کیا گیا ہے جبکہ سائیڈز اور فرنٹ شیشے حفاظت سے محروم ہیں۔
سابق سیکرٹری ہوم اور اے آئی جی سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا جیسے دہشت گردی سے متاثرہ صوبے میں پولیس کو نہ صرف بلٹ پروف بلکہ بم پروف گاڑیوں کی بھی فوری ضرورت ہے کیونکہ فرنٹ لائن اہلکار بالمشافہ خطرات کا سامنا کر رہے ہیں اور وسائل کی کمی ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
بلٹ پروف گاڑیاں تیار کرنے والی رجسٹرڈ کمپنی ’’ساروان‘‘ کے چیف آپریٹنگ آفیسر کے مطابق بلٹ پروفنگ اور بم پروفنگ کے عمل میں مختلف دورانیہ درکار ہوتا ہے اور ایک گاڑی کو مکمل طور پر بلٹ پروف بنانے میں عموماً چھ سے آٹھ ہفتے لگتے ہیں۔
پولیس اور سابقہ حکام کی تنبیہات کے باوجود اگر فوری طور پر مناسب اور فعال بلٹ پروف/بم پروف گاڑیاں فراہم نہ کی گئیں تو صوبے میں سیکیورٹی آپریشنز اور شہری و پولیس اہلکاروں کی حفاظت پر سنگین اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔