ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) سمٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں ’خونی قاتل‘ قرار دے دیا۔
ساؤتھ کوریا میں منعقدہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ کے اس بیان نے نہ صرف بین الاقوامی میڈیا میں ہلچل مچا دی بلکہ بھارت اور امریکا کے تعلقات میں بھی نئی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔
اپنی تقریر کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’مودی دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں مگر اندر سے قاتل جتنے سخت انسان ہیں۔‘ انہوں نے طنزیہ انداز میں مودی کی نقل اتارتے ہوئے کہا، ’نہیں، ہم لڑیں گے!‘ اور پھر کہا سیز فائر ہو، ’میں نے سوچا، کیا یہ وہی شخص ہے جسے میں جانتا ہوں؟‘
صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ پاک بھارت کشیدگی کم کرانے اور جنگ بندی کی کوششوں میں ان کا کردار فیصلہ کن تھا۔ ان کے مطابق ’اگر امریکا مداخلت نہ کرتا تو شاید دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پر تصادم ہو سکتا تھا۔‘
ٹرمپ کے بیان کے بعد سمٹ کے شرکا نے حیرت کا اظہار کیا، جب کہ بھارتی وفد نے فوری طور پر کسی تبصرے سے گریز کیا۔ تاہم غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں امریکی سفیر کو طلب کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاکہ صدر ٹرمپ کے ریمارکس پر وضاحت طلب کی جا سکے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ غیر سفارتی تبصرہ بھارت امریکا تعلقات میں مزید دراڑ ڈال سکتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب دونوں ممالک دفاعی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ٹرمپ ایسے بیانات بھارت خصوصاً بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے غیر مناسب روّیہ کے باعث سامنے آ رہے ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ وضاحت جاری نہیں کی گئی۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا نے ٹرمپ کے بیان کو بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے اور اسے مودی کی عالمی ساکھ پر براہِ راست حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے اس بیان نے نہ صرف بھارت امریکا تعلقات میں تناؤ بڑھا دیا ہے بلکہ آئندہ سفارتی مذاکرات پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔