وراثت مانگنا، عورت کا سب سے بڑا گناہ تصور ہونے لگا

وراثت مانگنا، عورت کا سب سے بڑا گناہ تصور ہونے لگا

(تحریر: جوھر شاہ) خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقے میں بہن اور بھائیوں کے درمیان والد کی جائیداد میں سے حصہ مانگنے پر اختلافات اس قدر شدید ہوگئے کہ بہن کے سگے دو بھائیوں نے بہن کے گھر جا کر نہ صرف اپنی بہن کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اُس ہستی پر بھی ہاتھ اٹھایا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “ماں کے قدموں تلے جنت ہے”۔ جب ماں نے بہن پر تشدد سے منع کرنے کی کوشش کی تو اُنہیں بھی دھکا دے کر گرا دیا گیا۔

پختون معاشرے میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، خیرات، مساجد کی تعمیر اور دیگر نیک اعمال تو عام نظر آتے ہیں لیکن جب باپ کی وفات کے بعد ایک یا دو نہیں بلکہ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن اپنے شرعی حقِ وراثت کا مطالبہ کرے، تو اکثر وہی بھائی اُس کے جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس نے ہر صاحبِ دل کو لرزا کر رکھ دیا۔ ویڈیو میں دو بھائی اپنی ہی بہن پر بہیمانہ تشدد کرتے نظر آئے۔ ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑا تھا جس سے وہ بہن کو مارتا رہا جبکہ ایک بزرگ خاتون، جو ان تینوں کی ماں تھیں، اُنہیں بھی نہیں بخشا گیا اور ایک بھائی نے انہیں ایسا دھکا دیا کہ وہ زمین پر جا گریں۔

اس مظلوم بہن کا قصور صرف یہ تھا کہ اْس نے اپنے بھائیوں سے وراثت میں اپنا شرعی حصہ مانگا، وہ حق جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورت کو عطا کیا مگر یہاں دین کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر بھائیوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ظلم و جبر کی حدیں بھی پار کردیں۔

اطلاعات کے مطابق پشاور کے بھانہ ماڑی پولیس نے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرلیا جنہوں نے بہن اور ماں پر تشدد کیا اور جن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی تھی۔ یہ واقعہ جہاں معاشرتی زوال اور بربادی کی علامت ہے، وہیں افسوس اس بات کا ہے کہ بعض “دیسی لبرلز” نے اس سانحے کو اپنے مخصوص بیانیے سے جوڑ دیا اور اسے “گھریلو تشدد کے خلاف قانون” (Domestic Violence Bill) سے منسلک کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ جو لوگ اس بل پر اعتراض کرتے ہیں وہ عورتوں پر تشدد کے حامی ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس بل کی کئی شقیں نہ صرف متنازع ہیں بلکہ خاندانی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہیں۔

اسلام نے عورت کو جو مقام دیا، دنیا کی کوئی اور تہذیب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی، بیٹی کو رحمت قرار دیا، بہن کو احترام دیا اور بیوی کو شریکِ حیات بنایا۔ گھریلو تشدد روکنے کے نام پر جو قوانین بنائے جا رہے ہیں اُن میں بعض تعریفیں اتنی مبہم ہیں کہ باپ، ماں یا گھر کا سربراہ اگر اپنی اولاد کی جائز تربیت یا اخلاقی رہنمائی کرے تو وہ بھی مجرم ٹھہرا دیا جائے گا۔

اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو غلط صحبت سے روکے، بیٹی کو حجاب کی تلقین کرے یا دیر سے گھر آنے پر سختی کرے تو کیا یہ تربیت “تشدد” کہلائے گی؟ اگر والدین اپنی اولاد کی نگرانی کریں اور انہیں نماز، روزے اور اسلامی آداب کی پابندی کا پابند بنائیں تو انہی عادات سے جرائم میں کمی آئے گی۔

اسلام نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا سکھایا ہے مگر ساتھ ہی تربیت، نظم و ضبط اور خاندانی اقدار کا نظام بھی دیا ہے۔ عورت کی حفاظت اسلام کے دائرے میں ہے، آزادی کے نام پر اس دائرے کو توڑ دینا نہیں۔ بہن پر تشدد کرنے والے بھائی صرف مجرم نہیں بلکہ ایک بیمار معاشرتی سوچ کی علامت ہیں۔

وہ سوچ جو دین سے دور، طاقت کے نشے میں عدل، اخلاق اور رشتوں کی حرمت بھول گئی ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ قانون سازی محض کاغذوں تک محدود نہ رہے بلکہ عملی طور پر نافذ ہونے کیلئے بھی اقدامات کرے، تاکہ ظالم خواہ امیر ہو یا جاگیردار، سب کے لیے ایک جیسا قانون ہو۔ ایسے درندوں کو عبرتناک سزا دیکر مثال قائم کی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھائی اپنی بہن کے حق پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *