بھارت کا وسطی ایشیا میں قدم جمانے کا خواب بکھر گیا ہے، تاجکستان نے ’عینی ایئربیس‘ کو بھارتی فوج سے خالی کروا لیا، جس کے نتیجے میں بھارت کی 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ڈوب گئی۔ اس اقدام کو نئی دہلی کے لیے ایک بڑی اسٹریٹجک ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ’عینی ایئربیس‘ بھارت کا واحد بیرونِ ملک فوجی اڈہ تھا، جو 25 برس سے زیادہ بھارتی فوج کے کنٹرول میں رہا۔ یہ اڈہ بھارت کے وسطی ایشیائی اثر و رسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا، تاہم تاجکستان کی حکومت نے اب بھارتی عملے کو وہاں سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے اس اقدام کو وزیراعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے خطے میں بھارت کے اسٹریٹجک مفادات کو کمزور کر دیا ہے۔ کانگریس رہنما ششی تھرور نے ایک بیان میں کہا، ’عینی ایئربیس بھارت کے لیے وسطی ایشیا میں موجودگی کا واحد پلیٹ فارم تھا۔ اس کا خاتمہ بھارت کی جغرافیائی اور عسکری منصوبہ بندی کے لیے بڑا دھچکا ہے۔‘
ذرائع کے مطابق بھارت نے اس ایئربیس پر 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تھی، جس میں رن وے کی توسیع، جدید فضائی نگرانی کے آلات اور رہائشی انفراسٹرکچر شامل تھے۔ تاہم اب تاجک حکام نے واضح کیا ہے کہ ملک میں کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کو قومی خودمختاری کے منافی قرار دیا جائے گا۔
عینی ایئربیس بھارت کے لیے نہ صرف ایک عسکری مرکز تھی بلکہ خطے میں خفیہ سرگرمیوں اور افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بھی سمجھی جاتی تھی۔ سیکیورٹی ماہرین کے مطابق، بھارت اس اڈے کے ذریعے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں سے بھی رابطے میں رہتا تھا۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاجکستان کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے سفارتی تنہائی کا اشارہ ہے۔ حالیہ برسوں میں چین اور روس نے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط کیے ہیں، جبکہ بھارت اپنی علاقائی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، عینی ایئربیس کے نقصان کے بعد بھارت کا وسطی ایشیا میں موجودہ اثر تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد خطے میں چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات مزید مستحکم ہونے کا امکان ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس معاملے پر تاحال باضابطہ ردعمل نہیں دیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی دہلی اس فیصلے پر شدید تشویش میں مبتلا ہے اور تاجک حکومت سے مذاکرات کے امکانات پر غور کیا جا رہا ہے۔