وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے راولپنڈی میں چین کے باشندوں اور پاکستان کے سرکاری افسران پر مشتمل اربوں کی بھتہ اور رشوت خوری کا میگا اسکینڈل بے نقاب کر دیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ’ایف آئی اے‘ کے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے قومی سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی ’این سی سی آئی اے‘ راولپنڈی کے متعدد سینیئر افسران، نجی افراد اور چینی شہریوں کے خلاف ایک بڑے مقدمے کا اندراج کیا ہے۔ یہ مقدمہ غیر قانونی ’کال سینٹرز‘، بھتہ خوری اور رشوت ستانی کے ایک وسیع نیٹ ورک سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر ’بحریہ ٹاؤن راولپنڈی‘ میں چلایا جا رہا تھا۔
’ایف آئی آر نمبر 97/2025‘ کے مطابق، جو دفعہ 109، 161، 386، 420 پاکستان پینل کوڈ بمعہ دفعہ 5(2)47 انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 کے تحت درج کی گئی، تفتیشی رپورٹ ’انکوائری نمبر 326/2025‘ سے شروع ہوئی۔
اس میں انکشاف ہوا کہ تقریباً پندرہ ’کال سینٹرز‘ بشمول ’ایم اے کے جے‘ انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ‘، ’ سی ڈریگن کیسینو‘ اور دیگر کمپنیاں غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن، راولپنڈی میں دھندہ کر رہی تھیں۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کال سینٹرز کو چینی شہری چلا رہے تھے جنہوں نے پاکستانی ملازمین کو پرکشش تنخواہوں پر رکھا ہوا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، ان سرگرمیوں کو ’این سی سی آئی اے‘ کے بعض افسران کی سرپرستی حاصل تھی جو ان مراکز سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے رہے۔
اہم کردار اور 13 افسران
’ایف آئی آر‘ میں درج ملزمان کے ناموں اور سرکاری افسران میں’شہزاد حیدر‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر این سی سی آئی اے،’حیدر عباس‘ ڈپٹی ڈائریکٹر، ’محمد بلال‘ سب انسپکٹر، ’حسن عامر‘ (فرنٹ مین، پرائیویٹ پرسن، بلو ہاکس سیکیورٹی کمپنی کا منیجر، ’عامر نذیر‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر، ’ندیم احمد خان‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ایکٹنگ ڈپٹی ڈائریکٹر، ’سلمان اعوان‘ ڈپٹی ڈائریکٹر (اینٹی بلاسفیمی یونٹ) شامل ہیں۔
اسی طرح ’سارم علی‘ سب انسپکٹر، ’عثمان بشارت‘ سب انسپکٹر، ’ظہیر عباس نیازی‘ سب انسپکٹر، ’طاہر محی الدین‘ (فرنٹ مین، پرائیویٹ پرسن)، ’میان عرفان‘ سب انسپکٹر (ایس ایچ او این سی سی آئی اے اسلام آباد) اور’گواکسیان عرف کیلون‘ (چینی شہری، پاسپورٹ نمبر EJ7505313) شامل ہیں۔
بھتہ خوری کا طریقہ کار
تحقیقات کے مطابق ’حسن عامر‘ جو نجی سیکیورٹی کمپنی ’بلو ہاکس‘ کا نمائندہ تھا، چینی شہری ’گواکسیان عرف کیلون‘ کے ساتھ مل کر ’این سی سی آئی اے‘ کے افسران کے تعاون سے غیر قانونی کال سینٹرز کے مالکان سے بھاری رقوم وصول کرتا رہا۔
یہ افسران ہر کال سینٹر سے ماہانہ تقریباً ’1 کروڑ 50 لاکھ روپے‘ بھتہ لیتے رہے اور ستمبر 2024 سے اپریل 2025 تک مجموعی طور پر تقریباً ’12 کروڑ روپے‘ اکٹھے کیے گئے۔
’ایف آئی آر‘ کے مطابق، رقم کی ماہانہ تقسیم کچھ اس طرح تھی کہ ’حسن عامر‘ (فرنٹ مین): 50,000 روپے فی سینٹر، ’محمد بلال‘ (سب انسپکٹر) 2 لاکھ روپے، ’شہزاد حیدر‘ (ایڈیشنل ڈائریکٹر) 5 لاکھ 50 ہزار روپے، دیگر افسران 80 ہزار روپے ’’تعاون فیس‘‘ کے طور پر لیتے رہے۔
چھاپہ اور غیر قانونی عمل کی تسلسل
’ایف آئی اے‘ نے بعد ازاں اسلام آباد کے سیکٹر ایف-11 میں واقع ایک غیر قانونی کال سینٹر پر چھاپہ مار کر ’حسن عامر‘ اور ایک چینی شہری ’لیو‘ کو گرفتار کر لیا۔
’ایف آئی آر‘ کے مطابق مئی 2025 میں جب ’عامر نذیر‘ کو ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ’ندیم احمد خان‘ کو ایکٹنگ ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات کیا گیا، تو نئی انتظامیہ نے بھی پچھلی ٹیم کی طرح رشوت خوری اور بھتہ وصولی کا سلسلہ جاری رکھا۔
’سلمان اعوان‘ ڈپٹی ڈائریکٹر (اینٹی بلاسفیمی یونٹ) اور ’سارم علی‘ سب انسپکٹر بھی اسی نیٹ ورک میں سرگرم رہے۔
پاکستانی خاتون سے رشوت کا معاہدہ
تحقیقات میں ایک پاکستانی خاتون ’اریبہ رُباب‘ کا نام بھی سامنے آیا ہے، رپورٹ کے مطابق ’سارم علی‘ سب انسپکٹر نے ’طاہر محی الدین‘ کے ذریعے ’اریبہ رُباب‘ سے 2 کروڑ روپے رشوت کے عوض بات چیت کی تاکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہو۔
’اریبہ رُباب‘ نے 80 لاکھ روپے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے اور مزید 1 کروڑ 20 لاکھ روپے دیگر 13 چینی شہریوں کے لیے ادا کیے۔
مزید برآں، ڈیجیٹل شواہد جیسے ’واٹس ایپ‘ چیٹس اور ویڈیوز بھی برآمد ہوئیں جن میں ’سارم علی‘ کو چینی شہری ’گواکسیان عرف کیلون‘ پر تشدد کرتے دکھایا گیا تاکہ اسے ادائیگی پر مجبور کیا جا سکے۔
رقم کی تقسیم
’ایف آئی آر‘ کے مطابق 2 کروڑ 10 لاکھ روپے کی رشوت میں سے جو رقم تقسیم کی گئی اس میں ’سارم علی‘ سب انسپکٹر 10 لاکھ روپے، ’عثمان بشارت‘ سب انسپکٹر 14 لاکھ روپے، ’ظہیر عباس نیازی‘ سب انسپکٹر 10 لاکھ روپے، ’ندیم احمد خان‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر1 لاکھ روپے، ’عامر نذیر‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر 95 لاکھ روپے (دفتر کے ذریعے وصول)، بقیہ 25 لاکھ روپے دیگر ذرائع میں تقسیم کی گئی۔
گرفتاریاں اور مزید کارروائی
’ایف آئی اے‘ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں چھاپوں کے دوران 7 چینی شہری بھی گرفتار کیے ہیں، رپورٹ کے مطابق، بعد از گرفتاری بھی ’سارم علی‘ سب انسپکٹر نے ’تہذیب بیکری، جی-8 مرکز اسلام آباد‘ سے مزید 1 کروڑ 50 لاکھ روپے رشوت لی، جن میں سے 30 لاکھ روپے اپنے فرنٹ مین ’طاہر محی الدین‘ کو دیے اور 1 کروڑ 20 لاکھ روپے خود رکھے۔
’ایف آئی اے‘ کے مطابق غیر قانونی کال سینٹرز اور بھتہ خوری کے اس پورے نیٹ ورک کے ذریعے تقریباً ’25 کروڑ روپے‘ اکٹھے کیے گئے جو افسران میں تقسیم کیے گئے۔
مقدمہ اور تفتیشی ٹیم
قانونی کارروائی کی منظوری کے بعد درج ذیل 13 ملزمان کے خلاف باضابطہ مقدمہ درج کیا گیا ہے جن میں ’شہزاد حیدر‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر، ’حیدر عباس‘ ڈپٹی ڈائریکٹر، ’محمد بلال‘ سب انسپکٹر،’حسن عامر‘ (فرنٹ مین، پرائیویٹ پرسن)،’عامر نذیر‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر، ’ندیم احمد خان‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ’سلمان اعوان‘ ڈپٹی ڈائریکٹر، ’سارم علی‘ سب انسپکٹر،’عثمان بشارت‘ سب انسپکٹر،’ظہیر عباس نیازی‘ سب انسپکٹر، ’طاہر محی الدین‘ (فرنٹ مین، پرائیویٹ پرسن)،’میان عرفان‘ سب انسپکٹر (ایس ایچ او این سی سی آئی اے اسلام آباد)، ’گواکسیان عرف کیلون‘ (چینی شہری، پاسپورٹ نمبر EJ7505313)،مقدمہ دفعہ جات 109، 161، 386، 420 پی پی سی بمعہ دفعہ 5(2)47 پی سی اے 1947 کے تحت درج کیا گیا۔
تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں شامل ہیں، ’محمد صفیر احمد‘، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے اے سی سی اسلام آباد، ’انسپکٹر محمد وحید خان‘، ’سب انسپکٹر شمس گوندل‘ (ایس ایچ او اے سی سی اسلام آباد)، ’ایف آئی آر‘ کی نقول تمام متعلقہ محکموں کو بھیج دی گئی ہیں۔
یہ مقدمہ پاکستان میں سائبر کرائم اور سرکاری بدعنوانی کے خلاف حالیہ برسوں کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔
’ایف آئی اے‘ کے مطابق، یہ نیٹ ورک ایک بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہ پر مشتمل تھا جو چینی اور پاکستانی عناصر کے ذریعے عوام سے دھوکہ دہی، بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے ذریعے کروڑوں روپے بٹور رہا تھا، جبکہ کچھ سرکاری افسران اس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔