بنگلہ دیش نے بھارت سے سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو فوری طور پر حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر مودی سرکار نے بھی اپنا ردعمل دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ پیر کو بنگلہ دیش کی عدالت نے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت اور تاحیات قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت کا یہ فیصلہ 3 رکنی بینچ کی جانب سے جاری ہوا، جس میں سابق وزیر داخلہ اسد الزماں کمال اور سابق آئی جی چودھری عبداللہ المامون کو بھی مجرم قرار دیا گیا۔
بنگلہ دیشی عدالت نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد نے طلبا کی تحریک کو دبانے کے لیے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرایا اور مظاہرین کے جائز مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے فسادات کو ہوا دی۔ عدالت نے واضح کیا کہ ’شیخ حسینہ نے طلبہ کی تحریک کو طاقت سے دبانے کے لیے توہین آمیز اقدامات کیے‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2024 کی تحریک کے دوران تقریباً 1,400 افراد مارے گئے تھے ، جس کی ذمہ داری سابق وزیراعظم پر عائد کی گئی ہے۔ عالمی جریدے الجزیرہ کے مطابق بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کسی صورت میں حسینہ واجد کو واپس نہیں کرے گا۔
بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ نے واضح کیا کہ ’مجرمان کو پناہ دینا انصاف کی بے توقیری ہے‘ اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’شیخ حسینہ واجد کو فوری طور پر بنگلہ دیش کے حوالے کرے‘۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ اسد الزماں کمال کو بھی بنگلہ دیش کے حوالے کرنے پر زور دیا گیا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے بیان دیا کہ وہ ’شیخ حسینہ واجد کے بارے میں بنگلہ دیشی عدالت کے فیصلے سے آگاہ ہے اور اس صورتحال کو قریب سے دیکھ رہی ہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘بھارت پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفادات کے لیے پرعزم ہے‘۔ وزارتِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ’بنگلہ دیشی عوام کا امن، جمہوریت اور استحکام بھارت کے لیے اہم ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لیے نئی دہلی تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مسلسل تعمیری رابطہ جاری رکھے گا‘۔
شیخ حسینہ، جو گزشتہ سال اقتدار سے محروم ہوئی تھیں، اپنی انتخابی شکست کے بعد بھارت منتقل ہوگئی تھیں۔ ان کی حالیہ سزا کے بعد ڈھاکہ اور نئی دہلی کے درمیان سفارتی تعلقات میں کشیدگی کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں، کیونکہ بنگلہ دیشی حکومت ان کی حوالگی پر زور دے رہی ہے۔
یہ پیش رفت علاقائی سیاسی منظرنامے میں ایک اہم اضافہ ہے، کیونکہ شیخ حسینہ کا بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک نمایاں کردار رہا ہے اور دونوں پڑوسی ممالک کے تاریخی تعلقات بھی اہم ہیں۔