پنجاب میں تعلیمی اداروں میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے بڑا فیصلہ، تعلیمی بھرتیوں کےلیے جنسی جرائم کا ریکارڈ دیکھنے کی تجویز سامنے آگئی۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے تعلیمی اداروں میں بھرتی سے قبل سیکس آفینڈرز رجسٹر سے تصدیق کےلیے 2 صفحات پر مشتمل مراسلہ سیکرٹری پراسیکیوشن کو بھجوا دیا۔
پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل نے تعلیمی اداروں میں جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے اساتذہ اور عملے کی جانچ کے لیے ایسے میکانزم کا مطالبہ کیا ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان کا کوئی جنسی جرائم کا ریکارڈ موجود ہے یا نہیں۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے خبردار کیا کہ جنسی مجرم پورے تعلیمی ادارے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھرتی پر ملازمین کا جنسی جرائم کا ریکارڈ دیکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی حفاظت کے لیے موجودہ بھرتی نظام میں بڑا خلا موجود ہے، نادرا سیکس آفینڈرز رجسٹر تعلیمی اداروں میں بچوں کی حفاظت کا مؤثر ذریعہ ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے تجویز دی ہے کہ محکمہ قانون وانصاف سیکس آفینڈرز رجسٹر تک رسائی کے لیے میکانزم بنائے، تمام تعلیمی اداروں کے لیے سیکس آفینڈرز ویری فکیشن لازمی قرار دی جائے۔
اس ضمن میں وفاقی و صوبائی تعلیم کے محکموں کے ساتھ ساتھ جامعات، کالجوں اور اسکولوں کی انتظامیہ کو واضح ہدایات جاری کی جائیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نے انسدادِ ریپ (سیکس آفینڈرز رجسٹر) رولز 2023 کے اجراء کو سراہا جو انسدادِ ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے تحت نافذ کیے گئے۔
گزشتہ دہائیوں میں پاکستان کے انسدادِ ریپ قوانین میں مختلف اصلاحات کے بعد انسدادِ ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کو متاثرین کے لیے ایک بڑا سنگِ میل قرار دیا گیا تھا۔
اس ایکٹ نے ریپ کی تعریف کو وسیع کیا، متاثرہ افراد کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے مقررہ وقت میں ٹرائل یقینی بنانے کے اقدامات متعارف کروائے اور گواہان کے تحفظ کی دفعات شامل کیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نے لکھا (تعلیمی ادارے، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں) سیکھنے اور نشوونما کے لیے محفوظ مقامات ہونے چاہئیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ تعلیمی اداروں کی جانب سے طلبہ کے لیے نمایاں طور پر محفوظ ماحول پیدا کرے گی، جو انسدادِ ریپ قوانین کے مقاصد اور روح سے مکمل ہم آہنگ ہے۔