پاکستان کے بارے میں گزشتہ 2 دہائیوں سے ایک منظم پروپیگنڈا جاری ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ’پاکستان اور پاک فوج ڈالر لے کر امریکا کی جنگ لڑتی ہے‘، ’پاکستان امریکا کا غلام ہے‘ اور ’جرنیل ڈالر بھر بھر کر کھاتے ہیں‘۔
یہ بیانیہ ملک کے اندر اور بیرونِ ملک موجود مخصوص حلقوں کی جانب سے مستقل دہرایا جاتا رہا ہے، لیکن امریکی حکومت کے اپنے سرکاری اعداد و شمارمنظر عام پر آ گئے ہیں جنہوں نے تمام حقائق کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور اس پروپیگنڈے کو زمین بوس کردیا ہے۔
امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس اور یو ایس ایڈ کی ’گرین بک‘ کی تازہ رپورٹ نے تمام حقائق کھل کر بیان کر دیے ہیں جس کے مطابق 1946 سے 2024 تک امریکا کی معاشی و فوجی امداد کا سب سے زیادہ حصہ دار 10 ممالک میں اسرائیل، مصر، افغانستان، جنوبی ویتنام، جنوبی کوریا، عراق، یوکرین، اردن، ترکیہ اور ویتنام شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو سب سے زیادہ تقریباً 310 ارب ڈالر جبکہ افغانستان کو 2001 سے 2021 تک تقریباً 145 سے 160 ارب ڈالر تک امداد دی گئی۔ پاکستان اس فہرست میں کہیں بھی شامل نہیں ہے۔ امریکا نےاسرائیل کو تقریباً 310 ارب ڈالر، مصر کو تقریباً 170 ارب ڈالر، افغانستان کو 2001 سے 2021 تک تقریباً 160 ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔
وار آن ٹیرر کے بعد کی امداد حقیقت کیا ہے؟
رپورٹ کے مطابق اگر صرف 2001 کے بعد کی جنگی صورتحال کا ڈیٹا دیکھا جائے تب بھی افغانستان امداد کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔ امریکا کی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان (سیگار) کی رپورٹ کے مطابق صرف 2002 سے 2021 تک افغانستان کو 145 سے 160 ارب ڈالر تک کی امداد ملی ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کوکولیشن اسپورٹ فنڈ کے تحت تقریباً 14.6 ارب ڈالر جبکہ دیگر امداد سمیت مجموعی طور پر تقریباً 33 ارب ڈالرملے، یعنی افغانستان کے مقابلے میں 4 گنا کم رقم ملی ہے۔
پاکستان پر الزامات اور زمینی حقائق
بعض افغان حلقوں اور پاکستان مخالف عناصر کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ’پاکستان نے ڈالر کھا کر افغانستان کو تباہ کیا‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس سامنے آئے ہیں کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زیادہ شہریوں کی قربانیاں دیں،9 ہزار سے زیادہ فوجی جوان شہید ہوئے، ورلڈ بینک کے اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق دہشتگردی کے باعث پاکستان کی معیشت کو 130 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا؟۔
رپورٹ کے مطابق 35 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دی، جن پر عالمی برادری نے مکمل اخراجات کبھی ادا نہیں کیے۔ ایسے نقصانات اور قربانیاں ’ڈالر کی غلامی‘ میں نہیں بلکہ قومی سلامتی اور ریاستی بقا کے لیے دی جاتی ہیں۔
امریکا کی جانب سے امداد کی بندش اور پاکستانی مؤقف
امریکا نے مختلف ادوار میں امداد روکنے کی دھمکیاں دیں، ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا، لیکن پاکستانی فوج نے اپنی پالیسی ہمیشہ قومی مفاد کے مطابق بنائی۔ ضربِ عضب، ردالفساد اور فاٹا انضمام جیسے بڑے اقدامات کسی مقتدر ملک کی جنگ نہیں تھے، بلکہ پاکستان کی ریاست کو بچانے کے فیصلے تھے۔
’ڈالر کھانے‘ کا الزام، جواب ایک سوال میں
اگر پاکستان پر یہ الزام لگایا جائے کہ ’فوج نے ڈالر کھائے‘ تو اس کا سادہ جواب امریکی ریکارڈ میں موجود ہے’ کہ ذرا امریکی حکومت کا سرکاری ڈیٹا دیکھ لیا جائے کہ 160 ارب ڈالر افغانستان نے لیے یا پاکستان نے؟‘۔ اصل حقائق واضح کرتے ہیں کہ پاکستان مالی طور پر نہیں، بلکہ جانی، معاشی اور عسکری لحاظ سے سب سے مہنگی جنگ لڑنے والا ملک ہے۔