لیبیا کی مشہور وی لاگر، سوشل میڈیا انفلوئنسر اور بیوٹی انڈسٹری سے وابستہ کاروباری شخصیت خنسا مجاہد کو دارالحکومت تریپولی میں نامعلوم موٹرسائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ اس افسوسناک واقعے نے لیبیا کی سوشل میڈیا کمیونٹی اور شہری حلقوں میں شدید صدمہ اور غم کی لہر دوڑا دی ہے۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق واقعہ تریپولی کے علاقے السراج میں اس وقت پیش آیا جب خنسا مجاہد اپنی گاڑی میں سفر کر رہی تھیں۔ موٹرسائیکل پر سوار دو یا اس سے زیادہ مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ابتدائی فائرنگ کے بعد خنسا نے اپنی جان بچانے کے لیے گاڑی سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی، تاہم حملہ آوروں نے ان کا تعاقب کیا اور قریب آ کر براہ راست کئی گولیاں مارتے ہوئے انہیں موقع پر ہی قتل کر دیا۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ بہت تیز اور اچانک تھا، جبکہ ملزمان خنسا کے قتل کی تصدیق کے بعد فوراً جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، تاہم جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول فرانزک لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ تحقیقات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
پولیس نے بتایا کہ خنسا مجاہد کی گاڑی کے شیشے گولیوں سے بری طرح چھلنی تھے، جو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ٹارگٹ کر کے حملہ کیا گیا۔ پولیس کے مطابق مختلف پہلوؤں سے تحقیقات جاری ہیں اور قتل کے محرکات کا سراغ لگانے کے لیے کئی امکانات زیرِ غور ہیں، جن میں سیاسی دشمنی اور منصوبہ بندی کے تحت قتل شامل ہے۔
خنسا مجاہد لیبیا کی خواتین میں خاصی مقبول تھیں اور وہ فیشن، میک اپ اور بیوٹی انڈسٹری سے جڑی ویڈیوز اور وِلگز کے باعث سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں فالوورز رکھتی تھیں۔ ان کے اپنے بیوٹی سیلون، خواتین کے ملبوسات کے آؤٹ لیٹس اور کاروباری مراکز بھی تھے۔ وہ لیبیا کی سیاسی جماعت زاویہ کے رہنما معاذ المنفوخ کی اہلیہ بھی تھیں، جس کے باعث پولیس نے تفتیش میں سیاسی پہلو کو بھی شامل کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں صارفین نے ان کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ دن دہاڑے ایک معروف شخصیت کا قتل سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے اور حکومت کو اس سنگین جرم کے ذمہ داروں کو جلد از جلد گرفتار کرنا چاہیے۔
پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیاں اس ٹارگٹڈ کلنگ کو سنجیدگی سے لے کر تفتیش کر رہی ہیں، تاہم ابھی تک واقعے کے محرکات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ واقعے نے تریپولی اور دیگر شہروں میں خوف و تشویش کی فضا پیدا کر دی ہے۔