(سید ذیشان)
خیبرپختونخوا میں سرکاری دفاتر سے کرپشن خاتمہ، سرکاری امور میں تیزی لانے،پبلک سروس ڈیلیوری بہتر بنانے اور دفاتر کے اخراجات کم کرنے کیلئے شروع کیا گیا پیپر لیس منصوبہ بیوروکریسی کی سرخ فیتے کی نذر ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں ای گورننس پالیسی کے تحت تمام دفاتر کو پیپر لس بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن چند افسران کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی یہ منصوبہ شروع نہیں ہوسکا ہے۔ذرائع کے مطابق 2018 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے پبلک سروس ڈیلیوری کو بہتر بنانے،کرپشن ختم کرنے ،سرکاری امور میں تیزی لانے کے لیے یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ منصوبے کے تحت 32 سرکاری ڈیپارٹمنٹس کو پیپر لس بنایا جانا تھا۔ سمری،اعلامیہ،نوٹ اور دیگر دفتری امور پیپر لس ہونے تھے۔ اس منصوبے سے جہاں کاغذ کا استعمال کم کرنا مقصود تھا وہیں سرکاری امور میں تیزی لانے کی بھی امید لگائی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق اسی مقصد کے لیے باقاعدہ ایک الگ سیکشن مختص کیا گیا جہاں متعدد سرکاری ملازمین کو تربیت بھی دی جاچکی ہے لیکن تربیت لینے کے باوجود بھی کئی افسران اور ملازمین اس پالیسی کے حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ پالیسی کئی سال گزر جانے کے بعد بھی لاگو نہیں کی جاسکی ہے۔ موجود دستاویزات کے مطابق ابتدائی مرحلے میں 12 بڑے اور 171 چھوٹے سرکاری امور کو پیپر لس کرنا تھا جو نا ہوسکا ہے۔دستاویز کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2023-2022 کے دوران صرف اسٹیشنری کی مد میں سرکاری خزانہ کا 579 ملین روپے خرچ ہوا ہے،اگر یہ پالیسی لاگو ہو جائے تو ماہانہ 28 ملین روپے پی او ایل کا خرچ اور 90 فیصد پرنٹنگ کام بھی کم ہو جائے گی جس سے صوبائی خزانہ پر کام بوجھ کم ہو جائے گا۔
دستاویز کے مطابق پالیسی لاگو ہونے سے ماہانہ 21 درختوں کو بھی محفوظ بنایا ممکن ہوگا۔ اس حوالے سے سئینر پلاننگ آفیسر محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی عبد الرحمان سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اہم منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ محکمہ فنانس نے شروع کیا تھا اور وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ان کے مطابق محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام یہ منصوبہ نہیں ہے اس لئے انہیں بھی اس کا زیادہ علم نہیں ہے۔ان کا بتانا تھا کہ حکومت نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو اس منصوبے پر مزید کام کرنے کا ٹاسک حوالے کردیا ہے اور امید ہے کہ اب اس پر کام تیز ی ہو جائے گی ۔