سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت سے روک دیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ نے طے کیا ہے کہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی اس کا تعین نہیں ہوا اور تحقیقات جاری ہیں۔جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں کوئی بھی سچ تک نہیں پہنچنا چاہتا۔جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا بدقسمتی سے اس ملک میں سچ تک کوئی نہیں پہنچنانا چاہتا، سچ جاننے کیلئے انکوائری کمیشن بنا اسے سپریم کورٹ سے سٹے دے دیا اور سپریم کورٹ میں آج تک دوبارہ آڈیو لیکس کیس مقرر ہی نہیں ہوا۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ پارلیمان نے سچ جاننے کی کوشش کی تو اسے بھی روک دیا گیا، نہ پارلیمان کو کام کرنے دیا جائے گا نہ عدالت کو تو سچ کیسے سامنے آئے گا؟۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان دسمبر تک جیل سے باہر آسکتے ہیں، سینئر صحافی شاہد متیلا
جسٹس امین الدین خان نے نشاندہی کی کہ یہ ممکن ہے کہ جن لوگوں سے آڈیو میں بات کی جارہی ہے انہوں نے خود اسے لیک کیا ہو۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا اس پہلو پر غور کیا گیا ہے کیونکہ اب ہر موبائل فون میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے۔سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت سے روکتے ہوئے حکم امتناع جاری کردیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیلیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے 29 مئی اور 25 جون کے احکامات معطل کردیے۔ بشریٰ بی بی اور نجم سیٹھی کو نوٹس ز جاری کیے گئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی کارروائی روک دی ہے اور اب وفاقی حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوگی۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ 29 مئی 2024ء کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے کا جائزہ لیا گیا، اس حکم نامے کو اگلی عدالتی کارروائی میں توسیع نہیں دی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے کو توسیع ہی نہیں دی، اس لیے حکم نامہ معطل نہیں کر رہے۔
سپریم کورٹ نےاسلام آبادہائیکورٹ کے29مئی اور25جون کےاحکامات معطل کرتے ہوئے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کو نوٹس جاری کر دیے۔