ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ پاک فوج کسی جماعت کی مخالف ہے نہ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے، اگر فوج میں کوئی اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو خود احتسابی کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد قومی سلامتی کے معاملات سے جڑا ہے، داخلی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف کیے گئے اقدامات کا احاطہ کرنا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ رواں سال دہشتگردوں کیخلاف 32 ہزار سے زائد آپریشنز کیے گئے ہیں ، فتنہ الخوارج سے نمٹنے کیلئے روزانہ 130 سے زائد آپریشنز ہو رہے ہیں،ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ میں آپریشنز کے دوران 90 خوارج کو واصل جہنم کیا گیا، 8 ماہ میں 193 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 25 اور 26 اگست کی رات بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئیں، سکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں 21 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان میں احساس محرومی کا تاثر پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاک فوج کسی جماعت کی مخالف ہے نہ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے، اگر فوج میں کوئی اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو خود احتسابی کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اگر فوج میں کوئی اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو خود احتسابی کا نظام حرکت میں آجاتا ہے، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، فوج دیگر اداروں سے بھی توقع کرتی ہے کہ ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے کوئی بھی اپنے منصب کو استعمال کرتا ہے تو اس کو بھی جوابدہ کریں گے۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں وزارت دفاع کے ذریعے درخواست موصول ہوئی، 12 اگست کو فوج نے آگاہ کیا کہ ریٹائر آفیسر نے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے جس پر کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے میں جنرل باجوہ اور جنرل نوید مختار کے کردار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا براہ راست باس وزیراعظم ہوتا ہے اور اس معاملے میں جو بھی ملوث ہوگا، چاہے وہ کسی بھی رینک کا ہو، قانون کی گرفت سے باہر نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فیض حمید کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ پاک فوج ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے کی گئی خلاف ورزیوں کو کس قدر سنجیدہ لیتی ہے اور بلا تفریق قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔ پاک فوج میں خود احتسابی کا نظام ایک شفاف عمل ہے، پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، خود احتسابی کا نظام الزامات کی بجائے ٹھوس شواہد کے مطابق کام کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافی کے سوال ”کیا کہ کوٹ مارشل کی پروسیڈنگ آگے بڑھ رہی ہے تو تحریک انصاف کے رہنما خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو فوجی تحریر میں لیا جا سکتا ہے یا ان کے خلاف بھی فوجی ایکٹ کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے” کے جواب میں کہا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص اگر کسی فرد کو یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں اپنے زیادتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں اور اس کے ثبوت اور شوائد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا۔