پشاور ہائی کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہئوے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی اور عدالت نے اٹارنی جنرل کو 27 اے کا نوٹس جاری کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں آئینی ترامیم پیکج اور پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کو درخواست دائر کر کے چیلنج کیا گیا اور درخواست پر سماعت کرتے ہئوے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ہم اس کو دیکھیں گے کہ اس کو لارجر بینچ سنے یا دو رکنی بینچ سنے گا۔ وکیل درخواست گزار نے عدالت میں استدعا اختیار کی کہ عدالت اتنا حکم کریں کہ اس درخواست پر فیصلے تک کوئی آئینی پیکج نہ لائے جائے، جس چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا کہنا تھاکہ اس میں آئینی سوالات اٹھائے ہیں، آئین کی تشریح کی بات کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: عدالتی فیصلوں کی مثالوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
قبل ازیں وکیل درخواست گزار چوہدری اشتیاق نے کہا کہ ہم نے آئینی ترامیم پیکج اور پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈینس کو چیلنج کیا ہے کیونکہ آئینی پیکج جو لایا جارہا ہے، اس میں مختلف آئین کی شقوں میں ترامیم لائی جارہی ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ وکلاء اب ان ترامیم کے خلاف آئے ہیں، پہلے بھی اس طرح کے ترامیم کو چیلنج کیا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ درخواست ڈسٹرکٹ بار کی طرف سے ہے یا نائب صدر ڈسٹرکٹ بار کی طرف سے ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار کی طرف ہے وکلاء نے ملک بھر میں اس کے خلاف کنونشن کئے ہیں اب اس کو چیلنج کیا گیا ہے اورحکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین کے سٹرکچر کو چینج کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اتوار دن اجلاس بلاتی ہے اور رات کے 3 بجے تک اجلاس چلتا ہے اورآرٹیکل 199 اور 184 تھری میں بھی ترامیم لائی جارہی ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم میں ہائیکورٹ کے جج کا تبادلہ بھی شامل یے، ہائیکورٹ کے ججز کا مرضی کے بغیر بھی تبادلہ کیا جائے گا
مزید پڑھیں: پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے نیوکلئیر انرجی کے تناسب میں بتدریج اضافہ
وکیل درخواست گزار نے عدالت میں استدعا کی کہ جب بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے تو پارلیمنٹ میں اس پر ڈیبیٹ شروع ہوتا ہے۔ چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ترامیم کو پہلے کیو چیلنج کیا ہے یہ وجوہات بتائے۔ آرٹیکل 139 کا جو مینڈیٹ ہے پارلیمنٹ اس پر پورا نہیں اور اس وقت قومی اسمبلی اور سینٹ مکمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں ممبران کی تعداد کتنی ہے اوراس وقت قومی اسمبلی میں ممبران کی تعداد 272 ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اس وقت سینٹ میں ممبران کی تعداد 81 ہیں اوردونوں ہاؤس مکمل نہیں ہے، سینٹ میں خیبرپختونخوا کی نمائندگی نہیں ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں مکمل نہیں ہے۔ میرا کیس یہ ہے کہ دونوں ایوان مکمل نہیں ہے، جب دونوں ہاؤس مکمل نہیں ہے تو ترامیم نہیں لائی جاسکتی۔
مزید پڑھیں: ڈی چوک میں حالات معمول پر آگئے ، کنٹینرز ہٹا دیئے گئے
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ میں کوئی بل آتا ہے اور کچھ ممبران اسمبلی میں موجود نہیں ہے، دو تہائی ہے تو پھر کیا ہوگا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترامیم کے لئے ٹوٹل نمبر آف ممبران ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جب وزیراعظم کا انتخاب ہوتا ہے تو ٹوٹل نمبر ہے اور سپیکر، ڈپٹی سپیکر انتخاب میں موجود ممبران ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کو 27 اے کا نوٹس جاری کردیا ہے اور
عدالت نے سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی۔