اسلام آباد: آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی اور چیف کمشنر محمد علی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اسلام آباد کے تمام راستے کھول دیئے گئے ہیں۔
بدھ کو کمشنراسلام آباد محمد علی رندھاوا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی علی ناصر رضوی کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والوں نے اسلام آباد پر دھاوا بولا تھا، لیکن پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کے باعث نہ صرف مظاہرین کو ناکام بنایا گیا بلکہ شہر کے تمام روٹس کو کلیئر بھی کیا گیا۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ احتجاج اور دہشت گردی کے درمیان بہت فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مظاہرین پرامن طریقے سے اپنا موقف پیش کریں تو وہ احتجاج کہلاتا ہے، لیکن جب وہ پولیس اور رینجرز پر حملہ کرتے ہیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، تو وہ احتجاج نہیں بلکہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ آئی جی نے مزید کہا کہ احتجاج کی آڑ میں کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
آئی جی نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ اس احتجاج میں سیدھی فائرنگ کی گئی، اور اسلحہ جیسے 12 بور، کلاشنکوف اور دیگر ہتھیار استعمال کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے منظم گینگ کی صورت میں پولیس پر گولیاں چلائیں۔ اس احتجاج کے دوران 954 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 600 سے زائد کارکنان اور 210 گاڑیاں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بھاری اسلحہ بھی برآمد کیا گیا، جس میں کلاشنکوف اور دیگر ہتھیار شامل ہیں۔ آئی جی نے بتایا کہ احتجاج کے دوران 71 سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے 52 اہلکار صرف کل زخمی ہوئے، اور 27 اہلکاروں کو گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ اس دوران رینجرز کے تین اہلکار بھی شہید ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ کروڑوں اربوں میں کیا جا رہا ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا قانون کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔