رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ جہاں تک پارٹی ڈیمج کنٹرول کی بات ہے تو اس کو ٹائم لگے گا مگر ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کے ایکٹو ہونے سے اور حقائق قوم تک پہنچانے سے چیزیں کنٹرول ہوسکتی ہیں۔
تفصیلات ے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ آپ نے بڑی اچھی بات کی مگر پھر مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت دے دیں کہ یہ کیسی پی ٹی آئی دشمنی تھی کہ خیبر پختونخوا میں ان کو دوتہائی سے زیادہ اکثریت دیدی گئی۔
صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا نے کہا کہ میں نے حکومت کے کیس فیصلے کی حمایت نہیں کی آئین کی حمایت کی ہے، میں نے آئین کے متعلق کہا ہے کہ دستور پاکستان کا آرٹیکل 200صدر پاکستان کو اس بات کا اختیار دیتا ہے وہ کسی بھی ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں کسی بھی جج کو اس کی رضامندی سے ٹرانسفر کر سکتا ہے تبادلہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت اور جو متعلقہ عدالتیں ہیں کے چیف جسٹسز سے مشاورت کرنا ضروری ہے۔
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ریاست علی آزاد نے کہا کہ آرٹیکل 200 وہ ہے عارضی اگر آپ کسی جج، کسی سائڈ پہ کسی فیلڈ میں اسپیشیلٹی ہے کو عارضی طور پر لیکر جاتے ہیں تو پاکستان میں یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے، اس سے پہلے جسٹس، بلال، جسٹس اسلم اور جسٹس اقبال حمید الرحمن کی جو مثالیں دی جاتی ہیں تو پہلے جو دو جج صاحبان ہیں وہ پی سی او کورٹ میں آئے تھے، جنرل مشرف کے آرڈر سے آئے تھے۔