خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ جنرل (ڈی جی) سپورٹس افسران کے خلاف بدعنوانی، غیر قانونی دولت جمع کرنے، سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری فنڈز میں خورد برد کے الزامات پر انٹی کرپشن نے باقاعدہ طور پرتحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
محکمہ اینٹی کرپشن نے کرپشن کی شکایات پر محکمے سے تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے، محکمہ اینٹی کرپشن نے محکمہ کھیل کے اربوں روپے کے اخراجات کی تفصیلات مانگی ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر محکمہ کھیل کو 27 سوالات پر مشتمل سوالنامہ بھی ارسال کر دیا ہے۔
ڈی جی سپورٹس سے مئی اور جون میں خرچ ہونے والے تمام فنڈزکی تفصیلات بھی مانگی گئیں۔ ڈیلی ویجز پر بھرتی ہونے والے ملازمین کی تنخواہوں کے مد میں محکمہ خزانہ نے تین کروڑ روپے اپریل، مئی اور جون میں فراہم کئے تھے جبکہ سال2023-24میں انٹر مدارس گیمز میں صرف ٹی اے ڈی اے کی مد دو کروڑ، خصوصی افراد کے لئے گیمز کی مد میں دو کروڑ جبکہ دیگر کھیلوں کے لئے تین کروڑ روپے کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ ڈیلی ویجزاور ایمرجنسی بنیادوں پر ملازمین کی بھرتیوں، طریقہ کار اور منظوری سے متعلق بھی تفصیلات ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ 294 ڈیلی ویجز ملازمین کو نکالنے اور وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع میں 34 کلاس فورکی بھرتیوں اور حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس، قیوم اسپورٹس کمپلیکس اور عبدالولی خان اسپورٹس کمپلیکس سمیت بڑے اسپورٹس کمپلیکس سے آمدن اور اخراجات سے متعلق ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ اینٹی کرپشن نے پانچ بینک اکاونٹس سے متعلق بھی تفصیلات، ڈی جی آفس سمیت محکمہ میں تمام ترتعمیر و مرمتی کاموں پراٹھنے والے اخراجات، منظوری اور ٹھیکوں کی تفصیل، محکمہ کھیل کے تمام پراجیکٹس کے پی سی ون اور فنڈز سے متعلق تفصیلات ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اینٹی کرپشن کی جانب سے محکمہ کھیل کو ارسال کئے گئے سوالنامہ میں پشاورچوہا گجر میں سپورٹس گراونڈ کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے متعلق اس کی وجوہات، ڈی نوٹیفائی کرنے میں ڈیپوٹیشنسٹ کے کردار پربھی سوال اٹھایا گیا ہے، جبکہ اس کیساتھ ساتھ صوبے میں ایک ہزار سپورٹس گراونڈ کی تعمیرکے پراجیکٹ میں کتنی پیشرفت ہوئی اور کن کن اضلاع میں سپورٹس گروانڈ تعمیر کئے جار ہے ہیں اس کی بھی تمام تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
محکمہ انٹی کرپشن کی جانب سے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم سمیت صوبہ بھر میں کھیلوں کے میدانوں بشمول ملا گوری کرکٹ سٹیڈیم، پشاور سپورٹس کمپکس، اکوڑہ خٹک، مردان میں کلائمبنگ وال، لیونئی سپورٹس کمپلیکس میں لکھے گئے جعلی خط کی تفصیلات، پاراچنار اسپورٹس کمپلیکس، ایتھلیٹ ٹریکس، ہاکی گراؤنڈ ٹرف، انڈور جمنازیم، صدا اسپورٹس کمپلیکس، جمرود اسپورٹس کمپلیکس کا قیام اور بحالی، ضم اضلاع میں کھیلوں کی سہولیات کا قیام اور بحالی، حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس میں تھری ڈی اسکواش کورٹ کی فراہمی، میل جیم نازیم حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کی توسیع، سوات میں منی سپورٹس کمپلیکس، ایبٹ آباد اور نوشہرہ میں ہاکی ٹرف کی فراہمی، قیوم سٹیڈیم پشاور میں فٹ بال سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن، خیبرپختونخوا میں ڈویژنل سطح پر خواتین کے انڈور کھیلوں کی سہولیات کا قیام کے تعمیرومرمت میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ ان تعمیراتی کاموں میں ناقص میٹریل استعمال کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے، کتنے ٹھیکدداروں پر جرمانہ عائد کیا گیا کس بنیاد پر ٹھیکے دئیے گئے اور کتنا غیرمعیاری کام ہوا ہے، کتنے تعمیراتی کاموں کی لیبارٹری ٹیسٹنگ کی گئی ان تمام کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
محکمہ کے افسران کے زیر استعال گاڑیوں کی تفصیلات، کس آفس کے پاس محکمہ کی کتنی گاڑیاں زیر استعمال ہیں اور کونساآفسر کونسی گاڑی استعال کررہاہے، اسپورٹس انڈومنٹ فنڈ، سالانہ گرانٹ اِن ایڈ، کھلاڑیوں کے وظیفے، کوچنگ کیمپس اور مختلف ترقیاتی پروگراموں کے مالیاتی ریکارڈ، اے ڈی پی، نان اے ڈی پی، پی ایس ڈی پی، اے آئی پی، اور غیر ملکی فنڈ سے چلنے والے کھیلوں کے پروگراموںکی تفصیلات بھی طلب کی گئِ ہیں۔
اینٹی کرپشن حکام نے متنبہ کیا ہے کہ مطلوبہ ریکارڈ بروقت جمع نہ کرانے یا غلط یا گمراہ کن معلومات فراہم کرنے پر خیبر پختونخوا اینٹی کرپشن رولز 1999 اور پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی متعلقہ دفعات کے تحت سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔