پشاور: خیبرپختونخوا گندم سکینڈل میں صوبائی وزیر اور ان کے فرنٹ مین کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جب کہ اربوں روپے کی گندم محکمہ خوراک کے گوداموں سے غائب ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جبکہ ایک صوبائی وزیر اور وزیر خوراک نے حکم دیا تھا کہ گندم صرف صوبائی وزیر کے فرنٹ مین سے خریداری کی جائے۔ پنجاب کے زمینداروں سے 2800 روپے فی من کے حساب سے گندم خریدی گئی، لیکن چونکہ خریدار ایک ہی تھا، ٹرکوں کی طویل قطاریں لگ گئیں اور زمینداروں کو ٹرکوں کے کرائے میں اضافے کے باعث گندم 2400 روپے فی من کے حساب سے صوبائی وزیر کے فرنٹ مین کو بیچنی پڑی۔
اس کے بعد گندم کے واحد ڈیلر، جلال خان، سے صوبائی محکمہ خوراک نے یہی گندم 3900 روپے فی من کے حساب سے خریدی۔ یوں اس معاملے میں صوبائی وزیر، ان کے فرنٹ مین اور وزیر خوراک نے مل کر تقریباً 38 کروڑ روپے کی بدعنوانی کی۔ ذرائع کے مطابق اس رقم کا کچھ حصہ بنی گالہ بھی پہنچا دیا گیاہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ 3900 روپے فی من کے حساب سے خریدی گئی گندم خیبرپختونخوا کی عوام تک نہیں پہنچی، بلکہ سرکاری گوداموں سے غائب ہوگئی اور صرف نوشہرہ کے گودام سے 15,000 ٹن گندم غائب ہے، جس کی قیمت تقریباً 1 ارب 46 کروڑ روپے بنتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے دیگر گوداموں میں بھی ایسی صورتحال دیکھنے کو ملی۔
دوسری جانب وفاقی وزیر امیر مقام نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کی حکومت میں خیبرپختونخوا میں کرپشن کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی ہے، گندم سکینڈل، ادویات سکینڈل اور دیگر کئی معاملات کی مثال نہیں ملتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران کرپشن کے کئی سکینڈل سامنے آچکے ہیں، جن کے بارے میں محض تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔
صوبائی وزیر خوراک سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے آزاد ڈیجیٹل کو بتایا کہ وفاقی وزیر امیر مقام کے الزامات پر انہیں عدالت سے نوٹس بھیجا گیا ہے۔ صوبائی وزیر خوراک نے مزید کہا کہ وفاقی وزیر خود کرپشن کے بادشاہ ہیں اور انہوں نے 20 سال کے دوران جو امپائر بنایا ہے، اس پر سوالات اٹھنے چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوشہرہ کے گودام سے غائب گندم کی انکوائری انہوں نے خود شروع کی ہے اور اس بارے میں تحقیقات کا کریڈٹ حکومت کو دیا جانا چاہیے۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے موقف دینے سے انکار کر دیا۔