وزیر اعظم کا زرعی شعبے میں فرسودہ طریقوں پر اظہارِ برہمی، بڑے پیمانے پر اصلاحات کا حکم

وزیر اعظم کا زرعی شعبے میں فرسودہ طریقوں پر اظہارِ برہمی، بڑے پیمانے پر اصلاحات کا حکم

پاکستان کبھی کپاس اور گندم جیسے اہم فصلوں میں خودکفیل تھا، مگر آج فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے اور ملک کو وہ فصلیں بھی درآمد کرنی پڑ رہی ہیں جو کبھی یہاں وافر پیدا ہوتی تھیں۔

تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ملک کے زراعتی شعبے میں موجود سنگین مسائل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرسودہ زرعی طریقہ کار کو ”پتھر کے دور“ سے تعبیر کیا اور زراعت کے شعبے میں فوری اور ہمہ جہت اصلاحات کی بات کی۔

وزیرِ اعظم نے زرعی سائنس دانوں، کاروباری شخصیات، اور اعلیٰ حکومتی حکام پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے برسوں کی بدانتظامی، پرانے طریقہ کار، اور مواقع کے ضیاع پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی کپاس اور گندم جیسے اہم فصلوں میں خودکفیل تھا، مگر آج فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے اور ملک کو وہ فصلیں بھی درآمد کرنی پڑ رہی ہیں جو کبھی یہاں وافر پیدا ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، لیکن ان کا زرعی پوٹینشل پوری طرح استعمال نہیں ہو رہا۔

انہوں نے وسائل کے ناقص استعمال اور ماضی میں ہم آہنگی کے فقدان کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور مثال دی کہ چھوٹے کسانوں کی مدد کے لیے سروس کمپنیاں قائم کی گئیں، لیکن مؤثر نگرانی نہ ہونے کے باعث وہ غیر مؤثر ثابت ہوئیں۔

وزیرِ اعظم نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اب اگرچہ کچھ ادارے زرعی مشینری مقامی سطح پر تیار کر رہے ہیں، ماضی میں درآمد شدہ کمبائن ہارویسٹرز پر انحصار کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست رہی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت زرعی پیداوار اور مزاحمت میں بہتری کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی آرا کو اولین ترجیح دے گی تاکہ ایک جامع اسٹریٹجک فریم ورک تشکیل دیا جا سکے۔

انہوں نے ماضی میں بیوروکریسی کی ناکامیوں پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ چھوٹے کسانوں کی سہولت کے لیے بنائی گئی سروس کمپنیاں صرف فائلوں میں دفن ہو کر رہ گئیں۔ وزیرِ اعظم نے زرعی کاٹیج انڈسٹری، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) اور فصلوں کے ذخیرے کے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ موسم سے ہٹ کر فصلوں کے ذخیرے اور چھوٹے پیمانے پر ویلیو ایڈیشن پلانٹس کی شدید کمی ہے،“ اور اس بات پر زور دیا کہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری دیہی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے اور برآمدات میں بھی اضافہ ممکن ہے۔

اجلاس میں زرعی پیداوار میں کمی کے اہم عوامل کی نشاندہی کی گئی، جن میں غیر مؤثر آبپاشی، ناقص بیج، زمین کی نامناسب تیاری، اور کھاد کے غیر سائنسی استعمال شامل تھے۔

شرکاء نے اصلاحات کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں، جن میں بہتر واٹر مینجمنٹ سسٹمز، جدید سائنسی طریقوں سے غذائیت سے بھرپور فصلوں کے فروغ، کسانوں کے لیے عوامی و نجی تربیتی پروگراموں کی توسیع، دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت کے ذریعے زرعی ڈیجیٹائزیشن، کسانوں کا مرکزی ڈیٹا بیس، اور زرعی سپلائی چین میں بلاک چین اور کیو آر کوڈ ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔

اجلاس میں مٹی کی زرخیزی پر تحقیق، جدید زرعی توسیعی خدمات، مشینی کاشت کاری، اور منڈیوں کے ڈھانچے کی بہتری پر بھی زور دیا گیا۔

زرعی قرضوں تک رسائی کو آسان بنانے اور مالی اداروں کو متحرک کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔

وزیرِاعظم نے ان اصلاحات کو مؤثر انداز میں لاگو کرنے کے لیے قانونی اور انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت کو تسلیم کیا اور شفافیت، ماہرین، کسانوں، اور دیگر متعلقہ فریقین کی شمولیت پر مبنی پالیسی سازی کو پائیدار نتائج کے لیے ناگزیر قرار دیا۔

اجلاس کے اختتام پر وزیرِ اعظم نے پانچ خصوصی ورکنگ کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا، جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہوں گی، اور ہدایت کی کہ وہ دو ہفتوں کے اندر قابلِ عمل سفارشات پیش کریں۔

اجلاس میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک، وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی شیزا فاطمہ خواجہ، وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ، اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر ماہرین و اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *