ایران کے ساحلی شہر بندرعباس میں زوردار دھماکے سے ابتدائی طور پر 406 افراد زخمی ہو گئے ہیں
ایران کے مقامی میڈیا کے مطابق ہفتے کے روز دارلحکومت تہران سے 1000 کلو میٹر دور ایران کے مشہور ساحلی شہر بندر عباس کی ساحلی پٹی پر زور دار دھماکے سے سیکڑوں افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
ایران کی کسٹم اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہفتے کے روز ہونے والا دھماکہ سینا کنٹینر یارڈ میں ہوا جو پورٹس اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن سے وابستہ ہے۔
تہران سے سرکاری میڈیا کے مطابق زخمیوں کی تعداد 406 ہوگئی ہے۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جائے وقوعہ پر آتش گیر مواد کو ذخیرہ کرنے میں کوتاہی برتی گئی ہے۔
صوبہ ہرمزگان کی کرائسس مینجمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر مہرداد حسن زادہ نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ زخمیوں کو طبی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی حکام نے اس سے قبل جائے وقوعہ کا دورہ کیا تھا اور حفاظتی انتباہ جاری کیا تھا۔
نیشنل ایرانین پیٹرولیم ریفائننگ اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے دھماکے کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ دھماکے سے علاقے میں تیل کی تنصیبات متاثر نہیں ہوئیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ شاہد رجائی پورٹ میں ہونے والے دھماکے اور آگ کا ریفائنریز، فیول ٹینکس، ڈسٹری بیوشن کمپلیکس اور تیل کی پائپ لائنوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس سے قبل ہرمزگان پورٹس اینڈ میری ٹائم ایڈمنسٹریشن کے عہدیدار اسماعیل مالکی زادہ نے کہا تھا کہ دھماکہ شاہد راجی بندرگاہ کے قریب ہوا۔ سوشل میڈیا ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے مقام سے کالے دھوئیں کا ایک بہت بڑا غبار اور آگ کا ایک گولہ اٹھ رہا ہے۔
دیگر ویڈیوز میں عمارتوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ علاقے کے ارد گرد کئی لوگوں کو زخمیوں کی دیکھ بھال کرتے اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ شاہد رجائی بندرگاہ بنیادی طور پر کنٹینر ٹریفک کو سنبھالتی ہے اور اس میں تیل کے ٹینک اور دیگر پیٹروکیمیکل سہولیات بھی ہیں۔
مئی 2020 میں اسرائیل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے اسی بندرگاہ پر ایک بڑا سائبر حملہ کیا تھا، جس سے تنصیب کا کمپیوٹر سسٹم کریش ہونے کے بعد کئی دنوں تک نقل و حمل میں افراتفری پیدا ہوئی تھی۔ یہ دھماکہ ایک ایسے حساس وقت میں ہوا ہے جب ایرانی حکام ممکنہ نئے جوہری معاہدے پر امریکی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔