پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور پہلگام حملے کی روشنی میں نئی دہلی کے الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام آباد کی جانب سے سفارتی اقدامات پر سینیٹ میں اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ پاکستان بھارت پر حملے میں پہل نہیں کرے گا لیکن جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
سینیٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید مسروراحسن نے بھی تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز کی حمایت کی جس میں ملک میں اتحاد کا پیغام دینے کے لیے کثیر الجماعتی کانفرنس میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی شرکت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے علی ظفر کی جانب سے پیش کیے جانے والی تجویز کو پی ٹی آئی کے عون عباس نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو بھارت کو ایک مضبوط پیغام دینے کے لیے اس تجویز کے مطابق ایک ساتھ پیغام دینا چاہیے اور ایک کانفرنس بلائی جانی چاہیے جس میں یہ تمام قیادت شریک ہو۔
پیپلز پارٹی کے مسرور احسن نے اس خیال کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپوزیشن کی بات سننی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کو انا کو بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل کم از کم 3 سینیٹرز علامہ ناصرعباس، گردیپ سنگھ اور دوست محمد نے اڈیالہ جیل سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ عمران خان کو اپنی آزادی کے لیے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا اور اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے پہلگام حملے پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی مبینہ خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ سیاسی قیادت اس معاملے پر سخت بیانات دے۔
سینیٹر اسحاق ڈار کا بھارت کو سخت پیغام
دریں اثنا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دے گا لیکن حملے میں پہل نہیں کرے گا۔ انہوں نے پہلگام حملے کے بعد پاکستان کے سفارتی اقدامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، برطانیہ، ترکیہ، آذربائیجان، کویت، بحرین اور ہنگری کے وزرائے خارجہ کو پاکستان کے خدشات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے قطر کے وزیر اعظم سے بھی براہ راست بات کی ہے۔ اسحاق ڈار نے بحران کے تناظر میں پاکستان کی واضح حمایت کا اظہار کرنے پر چین اور ترکیہ کی تعریف کی۔
انہوں نے ایوان کو بتایاکہ ’میں نے انہیں بھارت کی نفسیات، اس کی تاریخ اور اس تاریخ کی روشنی میں اس کے ارادوں کے بارے میں ہمارے خدشات کے بارے میں آگاہ کر چکا ہوں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کسی نہ کسی طرح کشیدگی بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے، جس میں 40 نیم بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور اس کا الزام پاکستان میں مقیم ایک عسکریت پسند گروپ پر لگایا گیا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ نئی دہلی نے اس واقعہ کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا، جس نے جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا۔
اس کے بعد اس خطے کو بھارت کے یونین ٹریٹری فریم ورک میں شامل کر لیا گیا، جس اقدام کی پاکستان نے بارہا مذمت کی ہے۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ بھارت گزشتہ 2 سال سے بدلتے ہوئے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا طریقہ کار طے کیا گیا تھا۔
انہوں نے پہلگام حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی شک ہے کہ یہ ڈراما اس معاہدے کو معطل کرنے کے لیے رچایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا اس حملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اسحاق ڈار کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلگام حملے کی آزادانہ تحقیقات کی پیش کش کی تھی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی پانیوں میں کسی بھی قسم کی مداخلت کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کی جائے گی اور اسے جنگی کارروائی کے طور پر لیا جائے گا۔
دریں اثنا ایوان نے متفقہ طور پر ’حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیاروں کے کنونشن (نفاذ) بل، 2025‘ اور قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل 2025 کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا۔