خطے میں بدلتی سفارت کاری: پاکستان اور افغانستان ایک نئے دور کی دہلیز پر

خطے میں بدلتی سفارت کاری: پاکستان اور افغانستان ایک نئے دور کی دہلیز پر

جب خطے کی سیاست میں سرد مہری چھائی ہوئی تھی، ایسے میں ایک نئی امید نے جنم لیا، پاکستان اور افغانستان نے آپسی تعلقات کو رسمی جملوں سے نکال کر عملی اقدامات کی طرف موڑا ہے۔ سفارتی، تجارتی اور عوامی سطح پر تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے دونوں ممالک نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں سب سے نمایاں ناظم الامور کے عہدے کو سفیر کے درجے تک اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ ہے۔ اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے اعتماد اور تعاون کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔

پشاور میں تعینات افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے “آزاد ڈیجیٹل” کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں اس فیصلے کو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک “تاریخی موڑ” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناظم الامور کے بجائے باضابطہ سفیروں کی تعیناتی نہ صرف دونوں ممالک کے مابین اعتماد کو بڑھائے گی بلکہ ویزا، تجارت اور سفری سہولیات سے متعلق مسائل کے حل میں بھی مدد دے گی۔ ان کے مطابق، یہ ایک رسمی فیصلہ نہیں بلکہ ایک حقیقی عملی قدم ہے جو دونوں ممالک کو قریب لانے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے جواب میں افغانستان کا بھی اسلام آباد میں ناظم الامور کو سفیر کا درجہ دینے کا فیصلہ

قونصل جنرل شاکر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ماضی میں جو اختلافات پیدا ہوئے، وہ فطری نہیں بلکہ بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا نتیجہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور نیٹو ممالک نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان اور افغانستان ایک مضبوط بلاک کی صورت میں سامنے آئیں، کیونکہ ان قوتوں کو اس خطے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی شکست کے پس منظر میں ان ممالک نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان بداعتمادی کو ہوا دی تاکہ خطے میں استحکام نہ آ سکے۔

انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں چین نے بعض مراحل پر سہولت کار کا کردار ضرور ادا کیا لیکن اصل فیصلے پاکستان اور افغانستان نے خود کئے۔ دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنے مسائل خود حل کریں۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ایک ایسا موقع تھا جس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد دی۔

تجارتی تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے قونصل جنرل شاکر نے کہا کہ دونوں ممالک کی تاجر برادری نے دوطرفہ تعلقات کی بہتری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تاجر برادری ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط میں آسانی ہو، سرحدوں پر غیر ضروری رکاوٹیں ختم ہوں اور باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے۔ انہی مطالبات نے پالیسی سازی پر اثر ڈالنے میں کچھ حد تک کردار ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور چین نے سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کی حمایت کر دی

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے سوال پر قونصل جنرل نے محتاط روایہ اپناتے ہوئے کہ کہ افغان حکومت عالمی برادری کو پہلے ہی یقین دہانی کراچکی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور اس پالیسی پر سختی سے عمل ہورہا ہے تاہم انہوں نے اس موضوع پر مزید بات کرنے سے گریز کیا ۔

قونصل جنرل شاکر نے سی پیک کو اس خطے کیلئے سنہری موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ یہ دونوں ممالک سنٹرل ایشیا سمیت دیگر خطوں تک رسائی کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ افغانستان سی پیک کے فوائد حاصل کرنے کے لیے تیار ہے اور اس منصوبے کو خطے کی ترقی کا اہم محرک سمجھتا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو مالی فوائد ہوں گے ، دونوں ممالک کے مابین عوامی روابط میں موجود رکاوٹیں ختم ہوگی ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *