کیابجلی صارفین پر کیپسٹی پیمنٹس کا بھاری بوجھ برقرار رہے گا؟

کیابجلی صارفین پر کیپسٹی پیمنٹس کا بھاری بوجھ برقرار رہے گا؟

رواں مالی سال کے دوران ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 605 میگاواٹ تک پہنچنے کا امکان ہے تاہم غیر فعال پاور پلانٹس کو بجلی کی مناسب ادائیگیوں سے ملک بھر میں بجلی صارفین پر بوجھ برقرار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بجلی صارفین کو 51 ارب 49 کروڑ روپے کا بڑا ریلیف ملنے کا امکان

میڈیا رپورٹ کے مطابق سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں توانائی کے ماہرین پرامید ہیں کہ 12 سے 15 روپے فی یونٹ کی کیپسٹی پیمنٹس کا بوجھ آہستہ آہستہ کم ہو جائے گا، کیونکہ حکومت نے بجلی کے نئے منصوبوں کو روک دیا ہے اور متعدد آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کو ختم کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت توانائی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ‘گرمیوں کے دوران کیپسٹی پیمنٹس کا مسئلہ زیادہ تکلیف دہ نہیں سمجھا جاتا لیکن موسم سرما میں یہ اس وقت زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہماری بجلی کی کل طلب کم ہو کر صرف 12 سے 13 ہزار میگاواٹ رہ جاتی ہے۔’

اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 605 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے جس میں ہائیڈل (24.4 فیصد)، تھرمل (55.7 فیصد)، نیوکلیئر (7.8 فیصد) اور قابل تجدید توانائی (12.5 فیصد) شامل ہیں اس کے باوجود کیپسٹی پیمنٹس جاری ہیں۔

اقتصادی سروے میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 46 ہزار605 میگاواٹ بتائی گئی

جولائی تا مارچ مالی سال2025 کے دوران بجلی کی مجموعی پیداوار90,145 گیگا واٹ رہی جن میں ہائیڈل (30.4 فیصد)، تھرمل (46.3 فیصد)، نیوکلیئر (19.1 فیصد) اور قابل تجدید توانائی (4.2 فیصد) شامل ہیں۔ اسی عرصے کے دوران بجلی کی کھپت 80 ہزار 111 گیگاواٹ رہی جس میں گھرانوں کا حصہ 49.6 فیصد، صنعتی صارفین کا حصہ 26.3 فیصد، زراعت کا 5.7 فیصد اور کمرشل صارفین کا حصہ 8.6 فیصد رہا۔

مزید پڑھیں:ایک ماہ کے اندر بجلی کی قیمت 10روپے تک کم ہوجائیگی ہے، گوہر اعجاز

سروے کے مطابق 3530 میگاواٹ کی مجموعی صلاحیت کے حامل 6 نیوکلیئر پاور پلانٹس نے جولائی تا مارچ مالی سال 25کے دوران 17174 ملین یونٹ بجلی فراہم کی۔

46,605 میگاواٹ کی نصب شدہ صلاحیت میں سولر نیٹ میٹرنگ کے ذریعے 2,800 میگاواٹ سے زیادہ کا اضافہ بھی شامل ہے، جو مالی سال 24 کے اسی عرصے میں ریکارڈ کردہ 45,888 میگاواٹ کے مقابلے میں 1.6 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

اگرچہ تھرمل پاور اب بھی بجلی کی فراہمی کا سب سے بڑا حصہ 55.7 فیصد ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کے حصے میں کمی آئی ہے، جو زیادہ مقامی اور پائیدار ذرائع کی طرف منتقلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہائیڈل، نیوکلیئر اور قابل تجدید ذرائع مجموعی طور پر بجلی کی کل پیداوار کا 53.7 فیصد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم کل انسٹال شدہ صلاحیت کا جائزہ لیں تو تقریباً 50 فیصد آئی پی پیز سے آتا ہے، جس میں پنجاب اور وفاقی حکومت کی ملکیت والے چار آر ایل این جی پلانٹس سے تقریباً 5،000 میگاواٹ شامل ہیں۔ ان کو چھوڑ کر آئی پی پیز کا حصہ تقریباً 16،000-17،000 میگاواٹ ہے۔

اس میں سے 4000 سے 5000 میگاواٹ کے پلانٹس سالانہ دیکھ بھال کے تحت رہتے ہیں۔ دریں اثنا گڈو (جینکوز) میں پرانے سرکاری ملکیت والے پلانٹس کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہو کر تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ لہٰذا، آئی پی پیز سے پیداوار عام طور پر موسم گرما میں تقریباً 10،000 میگاواٹ رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آئی پی پیز کپیسٹی پیمنٹس کا معاملہ: مذاکرات کے لیے مزید 18 آئی پی پیز کی نشاندہی کر لی گئی

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر بتایا کہ آئی پی پیز، ہائیڈل، نیوکلیئر اور دیگر نان آئی پی پی ذرائع سے مجموعی پیداوار 33 ہزار سے 34 ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے جبکہ طلب 32 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح ہم موسم گرما میں 1000 سے 2000 میگاواٹ اور سردیوں میں 3000 سے 5000 میگاواٹ کی گنجائش کے چارجز ادا کرتے ہیں جب پانی کی دستیابی میں کمی کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔

نیشنل گرڈ کمپنی آف پاکستان (سابقہ این ٹی ڈی سی) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ڈاکٹر فیاض اے چوہدری نے کہا کہ سسٹم کی مضبوط صلاحیت 40 ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کی پیداوار، جس میں نیٹ میٹرڈ سسٹم سے 4،000-5،000 میگاواٹ اور اضافی نان نیٹ میٹرڈ صلاحیت شامل ہے، کو مضبوط صلاحیت نہیں سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ شام کے وقت دستیاب نہیں ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *