سعودی عرب ، چین سمیت متعدد ممالک نے ایران پر ’اسرائیلی جارحیت‘ کی مذمت کی ہے ۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے ایرانی جوہری اہداف پر حملہ کیا، جبکہ ایرانی میڈیا اور عینی شاہدین نے ملک کی یورینیم افزودگی کی مرکزی تنصیب سمیت متعدد مقامات پر دھماکوں کی اطلاع دی ہے۔
دنیا بھر کے اعلیٰ حکام اور حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کے ایران پر بڑے حملے کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا بیان
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آج رات، اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی، ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں ہیں اور ہماری اولین ترجیح خطے میں امریکی افواج کی حفاظت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایران کو امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘۔
#Statement | The Kingdom of Saudi Arabia expresses its strong condemnation and denunciation of the blatant Israeli aggressions against the brotherly Islamic Republic of Iran, which undermine its sovereignty and security and constitute a clear violation of international laws and… pic.twitter.com/OYuWXwiE5y
سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سعودی عرب، برادر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صریح اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، جو اس کی خودمختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے‘۔
ایران-امریکا جوہری مذاکرات میں ثالثی عُمان
عمان کی جانب سے صورتحال پر ردعمل میں کہا گیا کہ ’عمان اس عمل کو ایک خطرناک، غفلت کی بنا پر شدت میں اضافہ سمجھتا ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، اس طرح کا جارحانہ، مسلسل رویہ ناقابل قبول ہے اور علاقائی امن و سلامتی کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سلطنت عمان، اسرائیل کو اس کشیدگی اور اس کے نتائج کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس خطرناک اقدام کو روکنے کے لیے ایک مضبوط اور واضح موقف اپنائے‘۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان
ترجمان سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ ’انتونیو گوتریس مشرق وسطیٰ میں کسی بھی فوجی کشیدگی کی مذمت کرتے ہیں، وہ خاص طور پر ایران میں جوہری تنصیبات پر اس وقت اسرائیلی حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں جب ایران اور امریکا کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت جاری ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سیکریٹری جنرل نے دونوں فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں، ہر قیمت پر گہرے تنازع کی طرف جانے سے گریز کریں، ایسی صورتحال جس کا خطہ متحمل نہیں ہو سکتا‘۔
متحدہ عرب امارات کا تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے ’خطرات کو کم کرنے اور تنازع کو پھیلنے سے بچانے کے لیے انتہائی تحمل اور سمجھداری کا مظاہرہ‘ کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
اماراتی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ ’بات چیت بڑھانے، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور ریاستوں کی خودمختاری کا احترام موجودہ تنازع کے حل کے لیے اہم اصول ہیں‘۔
متحدہ عرب امارات نے سفارتکاری کے ذریعے تنازع کے حل پر زور دیا اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا کہ جنگ بندی کے حصول اور بین الاقوامی امن و سلامتی کی تقویت کے لیے فوری اور ضروری اقدامات کیے جائیں۔
ایران پر اسرائیلی حملے سے سفارتی کوششوں کو ’نقصان‘ پہنچا ، قطر
غزہ کے ثالث قطر نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی حل تک پہنچنے کی کوششوں کو ’پہنچا‘ ہے۔
خلیجی ریاست کی وزارت خارجہ نے سرکاری قطر نیوز ایجنسی کے ذریعے رپورٹ کردہ بیان میں کہا کہ ’قطر، اسرائیلی حملے پر شدید مذمت کا اظہار کرتا ہے‘، مزید کہا کہ ’خطرناک کشیدگی سے خطے کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ ہے اور کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی حل تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے‘۔
ترکیہ کا اسرائیل پر ’جارحانہ اقدامات‘ بند کرنے پر زور
ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو اپنے جارحانہ اقدامات کو فوری طور پر بند کرنا چاہیے جو مزید تنازعات کا باعث بن سکتے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کی گورننگ پارٹی کے ترجمان عمر سیلک نے کہا کہ یہ کارروائی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، جس کا مقصد غزہ میں اس کے اقدامات پر بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانا ہے۔
عمر سیلک نے ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کہا کہ ’اسرائیلی حملے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا، یہ وحشیانہ جارحیت ہے‘۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے امریکا اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران اس حملے کے ذریعے سفارتی کوششوں کے خلاف ’دشمنی‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ کا بیان
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آسٹریلیا، اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ سے پریشان ہے، اس سے ایک ایسا خطہ مزید غیر مستحکم ہونے کا خطرہ ہے جو پہلے سے ہی غیر مستحکم ہے، ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات اور بیان بازی سے گریز کریں جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم سب سمجھتے ہیں کہ ایران کا جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اور ہم فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دیں‘۔
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ ’یہ مشرق وسطیٰ میں واقعی ایک ناپسندیدہ پیشرفت ہے، غلط اندازے کا خطرہ زیادہ ہے، اس خطے کو مزید فوجی کارروائی اور اس سے وابستہ خطرے کی ضرورت نہیں ہے‘۔
جاپان کی جانب سے اظہار مذمت
جاپان کے وزیر خارجہ تاکیشی ایویا نے ٹوکیو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے تمام فریقین سے تحمل کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس تازہ ترین کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ کے خطے میں امن و استحکام جاپان کے لیے انتہائی اہم ہے، اور ہم اس میں شامل تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں اور حالات کو پرسکون کریں‘۔
بھارت کا اسرائیل اور ایران پر کشیدگی میں اضافہ نہ کرنے پر زور
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اسرائیل اور ایران دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’کشیدگی میں اضافہ کرنے والے کسی بھی اقدام سے گریز کریں‘۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ان حملوں کو ’اسرائیل کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک جوہری بم اور میزائل فیکٹریوں پر کام کرنے والے ایرانی سائنسدانوں کو بھی ایک آپریشن میں نشانہ بنا رہا ہے جو کئی دنوں تک جاری رہے گا۔
ایران نے طویل عرصے سے کہا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔