پاکستان کو عالمی سطح پر امریکہ، چین سمیت کئی اہم ممالک کی حمایت حاصل ہے،پروفیسر کرسٹوف جیفریلوٹ

پاکستان کو عالمی سطح پر امریکہ، چین سمیت کئی اہم ممالک کی حمایت حاصل ہے،پروفیسر کرسٹوف جیفریلوٹ

ویب ڈیسک۔ کنگز کالج لندن میں انڈین سیاست اور سوشیالوجی کے پروفیسر اور برٹش ایسوسی ایشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے چیئرمین، کرسٹوف جیفریلوٹ نے اپنے ایک مضمون بعنوان “Who Is India’s All-Weather Friend in This World? And who is Pakistan’s?” میں کہا ہے کہ مئی کے مہینے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد (یعنی پاکستان) ایک نہایت قیمتی اور قابلِ اعتماد دوست (چین) پر انحصار کر سکتا ہے، نہ صرف اس لیے کہ وہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے بلکہ اس لیے بھی کہ چین ہمالیہ میں بھارت کے ساتھ تصادم کی کیفیت میں ہے۔ اس کے برعکس، نئی دہلی ( یعنی بھارت) مئی کے بحران کے دوران نسبتاً تنہا نظر آئی۔

بین الاقوامی نشریاتی ادارے ’’دی وائر‘‘ میں شائع ہونے والے تجزیہ میں جیفریلوٹ نے لکھا کہ بھارت برسوں سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ساتھ وابستہ نظر آنے سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے، لیکن صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے ایک بار پھر “انڈیا-پاکستان ہائفنیشن” کو جنم دیا، جو بھارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی: ایک ایسے خطے میں الجھا ہوا ملک جہاں مسلسل تنازع جاری ہے، عالمی طاقت بننے کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت عالمی سطح پر پراکسیز میں ملوث ہے، کینیڈین انٹیلی جنس ایجنسی

انہوں نے مزید لکھا کہ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے بارے میں مثبت رویہ بھارت کی ان کوششوں کے برعکس ہے جو وہ اسلام آباد کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کے لیے کرتا رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے واقعات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اب بھی کئی حمایتی رکھتا ہے — اور یہ حمایت صرف امریکہ تک محدود نہیں ہے۔

جہاں تک بھارت کے دیرینہ اتحادی روس کا تعلق ہے، جیفریلوٹ نے نشاندہی کی کہ پہلگام واقعہ کے بعد ماسکو (روس) نے اس معاملے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا، بلکہ کچھ موقعوں پر پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ پاہلگام حملے کے بعد روس نے خاموشی اختیار کی، اور اس کے علاوہ اس نے کراچی کے قریب سویت دور کے ایک اسٹیل مل کو دوبارہ فعال کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات، بھارتی میڈیا اور مودی سرکار میں کھلبلی

پاہلگام حملے کے بعد صرف دو ممالک — افغانستان اور اسرائیل — نے بھارت کے ساتھ کھل کر اظہارِ یکجہتی کیا۔ افغانستان نے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش میں اس اقدام کا اظہار کیا، تاکہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لا سکے، لیکن یہ حکمت عملی اس وقت رک گئی جب چین نے مداخلت کی۔ بیجنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت علاقے میں امن قائم کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں افغان-پاکستان مصالحت ہوئی، اور کابل میں پاکستانی سفارتخانے کا دوبارہ افتتاح عمل میں آیا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *