آزاد ریسرچ ڈیسک: امریکی حملوں کے گھنٹوں بعد مودی نے ایرانی صدر کورسمی کال کی اور گہری تشویش کا اظہار کیا، مودی نے امریکہ یا اسرائیل کا نام تک نہیں لیا ۔
موجودہ حالات میں ایران کو مودی حکومت سے تعلقات پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے ،مشکل وقت میں خاموش دوستی بے معنی ہے ۔
حالیہ امریکی حملوں میں ایران کے معصوم شہریوں کی شہادت اور بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد دنیا بھر میں پھیلی خاموشی نے ایرانی عوام کو گہرے صدمے سے دوچار کردیا ہے۔
ایسے وقت میں جب ایران کو یکجہتی اور عملی مدد کی امید تھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا منافقانہ رویہ ایرانی عوام کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔
مودی کا بھارت ایران کا سچا دوست نہیں بن سکتا، بھارت جو اکثر دوستی، تعاون اور شراکت داری کے بلند بانگ دعوے کرتا نظر آتا ہے، اس نازک اور حساس موقع پر خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق مودی نے محض رسمی اور بزدلانہ انداز میں “گہری تشویش” کا اظہار کیا، مگر نہ تو اس جارحیت کا نام لینے کی جرأت کی اور نہ ہی امریکہ کی مذمت کرنے کا حوصلہ جتا سکا۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق جو دوست آزمائش کے وقت ساتھ نہ دیں اور اپنے ذاتی مفادات کو مظلوموں کی بقا پر ترجیح دیں، وہ نہ تو دوستی کے اہل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اعتماد کے مستحق۔
مودی اور اس کے نظریاتی ہم نوا نیتن یاہو کو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، یہ دونوں رہنما ظالموں سے پسِ پردہ سازباز کرتے ہیں اور عالمی فورمز پر اخلاقیات اور امن کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔
مودی حکومت کا ردعمل اس کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے — ایک ایسا چہرہ جو ظالموں کی خوشنودی کے لیے سفارتی لفاظی پر اکتفا کرتا ہے اور اپنے عوام کی دبی دبی آواز کو نظرانداز کرتا ہے۔
یہ سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مودی حکومت ایران کا قابلِ بھروسہ اتحادی نہیں بن سکتی، ایران کو چاہیے کہ مودی کے بھارت سے اپنی سابقہ قربتوں کا ازسرِنو جائزہ لے اور اپنی قومی سلامتی و سفارتی حکمت عملی کو اس حقیقت کی روشنی میں نئے سرے سے مرتب کرے۔
جو حکومت مشکل وقت میں خاموش تماشائی بن جائے، اس سے اسٹریٹجک تعلقات برقرار رکھنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اپنے قومی وقار پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف بھی ہے۔