خیبر پختونخوا کے بعض سرکاری ادارے اپنی ہی گاڑیوں کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ محکمہ زراعت، فنانس، نیشنل بینک آف پاکستان اور محکمہ لائیوسٹاک سمیت کئی اداروں نے اپنی رجسٹرڈ سرکاری گاڑیوں کا ریکارڈ معلوم کرنے کے لیے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے مدد مانگی ہے۔
مذکورہ محکموں کے پاس نہ صرف گاڑیوں کا ڈیٹا دستیاب ہے بلکہ کئی گاڑیاں غائب بھی ہو چکی ہیں جو متعلقہ محکموں کی غفلت اور لاپرواہی کو ظاہر کرتی ہیں۔ جبکہ ان کی گورننس پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
سب سے سنگین صورتحال محکمہ لائیوسٹاک کی ہے، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیوں کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق محکمہ لائیوسٹاک اینڈ کوآپریٹو کے پاس مجموعی طور پر 1209 گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں مختلف ماڈلز کی گاڑیاں شامل ہیں۔ تاہم سینکڑوں گاڑیوں کے بارے میں اس محکمہ کو کوئی علم ہی نہیں کہ وہ کس کے زیر استعمال ہیں اور کس حالت میں ہیں۔ تاحال محکمہ اپنی ہی گاڑیوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے۔
ریکارڈ کے مطابق محکمہ کے پاس 2022 ماڈل کی 5 فور بائے فور پک اپس، 54 موٹر کاریں، 4 جیپس، 50 وینز، 103 پک اپس، 5 ڈبل کیبن گاڑیاں، 7 ٹریکٹرز، ایک مِنی بس، 5 مِنی ٹرک، 2 تھری ویلرز اور 970 موٹر سائیکلیں شامل ہیں۔ تاہم ان میں سے بیشتر گاڑیوں کے موجودہ مقام اور استعمال کنندہ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمہ لائیوسٹاک و کوآپریٹو نے محکمہ ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ نارکاٹکس کنٹرول کو ایک خط ارسال کیاتھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کے نام پر رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد کتنی ہے کیونکہ محکمہ اپنی گاڑیوں کی تعداد اور استعمال کنندگان سے لاعلم تھا اور اب بھی ہے۔اگرچہ کچھ گاڑیوں کی نشاندہی ہو چکی ہے مگر انہیں واپس لینے کی متعدد کوششیں دیگر افسران کے انکار یا تعاون نہ کرنے کی وجہ سے ناکام رہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ محکمہ لائیوسٹاک سیکرٹریٹ نے ڈائریکٹوریٹس سے گاڑیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں کہ کس ڈائریکٹوریٹ کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں اور کس کے زیر استعمال ہیں۔ لیکن گاڑیاں کہاں گئیں اور کس کے زیر استعمال ہیں اس بارے میں سیکرٹریٹ تذبذب کا شکار ہے۔ اسی طرح ضم شدہ اضلاع کی گاڑیاں بھی دیگر افراد کے زیر استعمال ہیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ گاڑیوں میں سے بیشتر کے بارے میں کچھ معلومات نہیں اور نہ ہی اب تک یہ معلوم کیا جا سکا ہے کہ جو گاڑیاں مختلف ڈائریکٹوریٹس کے پاس ہے وہ گاڑیاں کس کے زیر استعمال ہیں۔ گاڑیوں کا سراغ لگانے کے لیے کئی مرتبہ کوشش کی گئی مگر تمام کوششیں ناکام رہیں۔ڈائریکٹوریٹس کے کچھ افیسرز جو اب وہاں پر تعینات نہیں ہے وہ بھی کئی گاڑیوں کو اپنے ساتھ لیکر گئے ہیں جبکہ سیکرٹریٹ میں تعینات ایک افیسر جو تبدیل ہوچکے ہیں وہ پانچ گاڑیاں اپنے ساتھ لیکر گئے ہیں۔ سوات میں جائیکا پراجیکٹ کی ایک وی ایٹ گاڑی وزیر اعلی سیکرٹریٹ میں تعینات ایک افیسر کے زیر استعمال ہے تاہم ازاد ڈیجٹیل کے پاس موجود فہرست میں پراجیکٹس کی پرکشش گاڑیوں کا ذکر نہیں ہے ۔
رابطہ کرنے پر سیکرٹری لائیوسٹاک اینڈ کوآپریٹو طاہر اورکزئی نے آزاد ڈیجیٹل کو بتایا کہ وہ گورننس پالیسی کے تحت اس سکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے والے ہیں اسی لیے ’’ہم نے گاڑیوں کا ڈیٹا ڈائریکٹوریٹس سے طلب کر لیا ہے، جس پر جلد میٹنگ طلب کرکے کارروائی شروع کی جائے گی۔‘‘
محکمے کے ماتحت تین ڈائریکٹوریٹس ہیں، جن میں ڈی جی فشریز، ڈی جی لائیوسٹاک ایکسٹینشن، ڈی جی لائیوسٹاک ریسرچ اور رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک ڈائریکٹوریٹ کی گاڑیاں دوسرے ڈائریکٹوریٹ کے پاس ہیں اور بندوبستی اضلاع کے لیے مختص گاڑیاں ضم شدہ اضلاع میں استعمال ہو رہی ہیں، جبکہ ضم شدہ اضلاع کی گاڑیاں کسی اور کے پاس ہیں۔