یومِ شہدائے کشمیر پر کشمیری شہداء کی یاد میں ہونے والی تقریبات پر مودی حکومت کی جابرانہ کارروائیاں، مقبوضہ کشمیر میں سیاسی آزادی اور شہداء کی وراثت کو مٹانے کی سازش بن چکی ہیں، یہ اقدامات کشمیری عوام کے حقِ اظہار کو دبانے کی کوشش ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری سیاسی جبر کا ایک اور نمایاں ثبوت اس وقت سامنے آیا جب میرواعظ عمر فاروق کو دوسرے روز بھی گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے کیونکہ کشمیری 13 جولائی 1931 کے شہداء کی یادگاری تقریب کا موقع ہے اور حکام نے یہ خدشات ظاہر کیے ہیں کہ اگر شہداء کا ذکر ان کے جمعہ کے خطبے میں کیا گیا تو اس سے افراتفری پھیل سکتی ہے۔ تاہم، ان شہداء کی قربانی جو ڈوگرا حکمرانی کے خلاف جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے ، کشمیریوں کی اجتماعی یاد میں ہمیشہ قائم رہے گی، اور ریاستی پابندیوں سے اس حقیقت کو مٹایا نہیں جا سکتا۔
“.@MirwaizKashmir remains under house arrest for the second consecutive day, as we approach the remembrance of the martyrs of July 13, 1931. Their legacy of courage and sacrifice continues to inspire us, and we remain committed to honoring them peacefully. #July13#MartyrsDay… pic.twitter.com/0no0ph92of
— Mirwaiz Manzil-Office of Mirwaiz-e-Kashmir (@mirwaizmanzil) July 12, 2025
13 جولائی 1931 کے شہداء، جنہوں نے اُس وقت کے جابرانہ نظام کے خلاف بہادری سے مقابلہ کیا، کشمیری مزاحمت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں، ان کی ہمت اور قربانی آج بھی کشمیریوں کے لیے تحریک کا باعث بنی ہوئی ہے، جو ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے آرہے ہیں حالانکہ بھارت کیجانب سے ریاستی کارروائیوں میں شدت آ رہی ہے، کشمیری عوام اپنے شہداء کی وراثت کو عزت دینے میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔
مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو ایک قید خانہ بنا دیا ہے، جہاں سیاسی اظہار کو دبایا جا رہا ہے، اختلاف رائے کو خاموش کر دیا گیا ہے، اور تاریخ کی پرامن یادوں کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے خاص طور پر میرواعظ عمر فاروق کی گھر میں نظر بندی، جب کشمیری 13 جولائی کے شہداء کی یاد میں اکٹھے ہونیوالے ہیں، یہ ایک اور آمرانہ فیصلے کی علامت ہے جو اس خطے پر مسلط کی گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں حکومت کے تحت سیاسی سرگرمیاں محدود کی جا رہی ہیں، مذہبی آزادی پر قدغن لگائی جا رہی ہے، اور کرفیو عائد کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو من مانے طریقے سے حراست میں لیا جا رہا ہے اور ان کی آوازوں کو گھروں میں ہی دبا دیا جا رہا ہے۔
کشمیر کے 13 جولائی کے شہداء، جنہوں نے ڈوگرا حکمرانی کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں، نہ صرف نظرانداز ہو رہے ہیں بلکہ ان کی یاد کو مٹانے کی کوشش ہے یہ نہ صرف کشمیریوں کی توہین ہے بلکہ جمہوری اقدار اور انسانیت کے اصولوں کے خلاف بھی ہے۔
اس تمام جبر کے باوجود، کشمیر کی مقابلے کی روح زندہ ہے جتنا بھی جبر اور پابندیاں عائد کی جائیں، کشمیری اپنے حقوق کے لیے شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے مستقل مزاحمت جاری رکھیں گے۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق میرواعظ عمر فاروق کی نظر بندی اور 13 جولائی کے شہداء کی پرامن یادگار کے لیے رکاوٹ ایک اور گواہی ہے کہ بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں کشمیریوں کی سیاسی آزادی کو کچلا جا رہا ہے، یہ اقدام محض تاریخ کے ایک باب کو مٹانے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ کشمیریوں کے خودارادیت اور وقار کے لیے ایک مکمل حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
تاریخی یادوں کو مٹانے کی یہ کوشش چاہے وہ یادگاروں پر قدغن لگانا ہو یا پرامن مظاہروں کو جرم بنانا جمہوریت اور انسانی حقوق کی بنیادی اقدار کو پامال کرتی ہے، عالمی سطح پر ہمیں ان کارروائیوں کو کشمیری عوام کے حق کو دبانے کی ایک جابرانہ کوشش کے طور پر دیکھنا ہوگا۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کا ماننا ہے کہ بھارت کیجانب سے کشمیریوں کی تاریخ کی محو کرنے کی سازش کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جانا چاہیے ، کشمیریوں کو اپنے شہداء کی یادگار بنانے، اپنی حقیقت بیان کرنے اور انصاف کا مطالبہ کرنے کا پرامن حق ملنا چاہیے، بغیر کسی خوف یا رکاوٹ کے۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ کشمیر کی آزادی، تاریخ اور جمہوری حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائے، کشمیر کی مزاحمت اور اس کی وراثت کو دبایا نہیں جا سکتا، اور یہ تنازعہ جتنا زیادہ دبا جائے گا، اتنا ہی طاقتور بن کر ابھرے گا۔