بھارت کی جانب سے 7 مئی سے 10 مئی تک کیے گئے ’آپریشن سندور‘جسے بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی تصور کیا جا رہا ہے، کے فوراً بعد بھارتی فضائیہ اب اسرائیل کے تیار کردہ ایئر لانچڈ لانگ رینج آرٹلری (ایئر لورا) میزائل سسٹم کی خریداری پر غور کر رہی ہے۔
یہ ممکنہ خریداری خطے میں کشیدگی کومزید ہوا دینے کے مترادف سمجھی جا رہی ہے، مبصرین اسے بھارت کی جارحانہ پالیسی کا تسلسل بھی قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت اپنی فضائی حملے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہوئے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
حکمتِ عملی میں تبدیلی
اسرائیلی ساختہ ’ایئر لورا‘ عام میزائل نہیں ہے۔ یہ رفتار، رینج اور درستگی کا ایک انوکھا امتزاج ہے، جو دشمن کی فضائی حدود میں دور تک مار کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے وہ بھی اپنے پائلٹس کو بغیر خطرے میں ڈالے۔ یہ میزائل 400 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر موجود ہدف کو 10 میٹر سے بھی کم کے سی ای پی کے ساتھ نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس کا بیلاسٹک نظام اسے تباہ کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ فائر اینڈ فارگٹ ڈیزائن کا مطلب ہے کہ پائلٹ میزائل فائر کرنے کے بعد فوراً واپس پلٹ سکتا ہے۔ جی پی ایس اور انرشیل نیویگیشن سسٹم، جو جدید اینٹی-جمِنگ ٹیکنالوجی سے لیس ہے، اسے الیکٹرانک وارفیئر کے ماحول میں بھی مؤثر رکھتا ہے۔
بھارتی طیار ایس یو۔30 ایم کے آئی جنگی طیارہ بیک وقت چار ’لورا‘ میزائل لے جا سکتا ہے، جو دشمن کی رن وے، ریڈار اور کمانڈ سینٹر کو ایک ہی مشن میں تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
’آپریشن سندور‘کے بعد اسرائیل بھارت کٹھ جوڑ
بھارت کی جانب سے ’لورا ‘ میزائل میں دلچسپی کا وقت نہایت اہم ہے۔ چند ہفتے قبل آپریشن سندور میں بھارتی فضائیہ نے مبینہ طور پر اسرائیلی ریمپیج میزائل کا عملی استعمال کیا، جسے بعض مبصرین آئندہ وسیع تر بھارت-اسرائیل عسکری تعاون کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ 2023 میں اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز(آئی اے آئی) اور بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ (بی ای ایل) کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے تاکہ جدید میزائل سسٹمز بھارت میں ہی تیار کیے جا سکیں۔
اگر ’ایئر لورا‘ کی خریداری آگے بڑھتی ہے، تو امکان ہے کہ اس کی تیاری ’میک ان انڈیا‘ پالیسی کے تحت بھارت میں ہی کی جائے گی، جس سے روزگار، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مستقبل میں میزائل کی برآمدات کی راہیں کھلیں گی۔
پاکستان کا عالمی برادری سے مطالبہ
پاکستان نے دُنیا کو بارہا بھارت اسرائیل کٹھ جوڑ سے خبردار کیا ہے کیونکہ دونوں ممالک انتہا پسند اور جارح پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی روایتی دفاعی نظریے سے ہٹ کر جارحانہ حکمتِ عملی کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
’یہ محض میزائل خریدنے کا معاملہ نہیں، یہ بھارت کی اصل جارح نیت کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ ’لورا‘ کوئی دفاعی ہتھیار نہیں، یہ طویل فاصلے تک ہدف کو نشانے بنانے کے لیے بنایا گیا ہے، جو واضح جارحیت ہے۔
اگرچہ ’لورا‘ کی خریداری کے چرچے ہو رہے ہیں لیکن ابھی یہ بھارتی فضائیہ میں شامل نہیں ہوا۔ اس کی جانچ، بھارت کے مختلف جغرافیائی علاقوں میں تجربات اور اسے طیاروں پر بغیر بڑے تکنیکی رد و بدل کے نصب کرنا ایک چیلنج رہے گا۔
پھر بھی، بھارتی دفاعی ذرائع پر اعتماد ہیں کہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلا، تو 2026–27 تک لورا سے لیس طیارے کام شروع کر سکتے ہیں، جو بھارت کی فضائی صلاحیت کو ایک نئے درجے پر لے جائے گا۔
یہ بات واضح ہے کہ ’لورا‘ اور براہموس جیسے میزائلوں کی جگہ نہیں لے رہا بلکہ اسے مکمل کر رہا ہے۔ دونوں میزائلوں کا مجموعہ بھارت کو ایک زبردست دفاعی و حملہ آور امتزاج فراہم کرتا ہے۔ لورا بھارت کو یہ دونوں صلاحیتیں فراہم کرتا ہے۔