مودی حکومت کی نصاب میں تبدیلیاں: مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کر کے ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوشش

مودی حکومت کی نصاب میں تبدیلیاں: مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کر کے ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوشش

ویب ڈیسک۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے ایک بار پھر تاریخ کو اپنے سیاسی نظریے کے تحت مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) کی جانب سے جاری کردہ آٹھویں جماعت کی نئی سوشل سائنس کی کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ تاریخ کی تدریس اب مکمل طور پر تبدیل کی جا رہی ہے۔

آزاد ریسرچ کے مطابق آٹھویں جماعت کی نئی سوشل سائنس کی کتاب میں بابر کو “ظالم اور بے رحم فاتح”، اکبر کو “ظلم و رواداری کا امتزاج”، اور اورنگزیب کو “مندروں کو تباہ کرنے والا حکمران” قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، ہندو حکمرانوں جیسے کہ شیواجی کو بے عیب “دیدہ ور رہنما” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جن کی تصویر ہر تاریخی تنقید سے پاک رکھی گئی ہے۔

یہ تبدیلیاں دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کے اُس دیرینہ نظریے کی عکاسی کرتی ہیں جس کے مطابق بھارتی تاریخ کو مسلم جبر کے خلاف ہندو مزاحمت کے بیانیے میں ڈھالنا ضروری ہے۔ اس منصوبے کو حقائق کی درستی کا نام دیا جا رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک خطرناک اور سوچی سمجھی کوشش ہے جس کا مقصد بھارت کے پیچیدہ تاریخی ورثے کو سادہ، جانبدار اور زہریلے بیانیے میں بدلنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مودی کے خود کو نہرو سے بڑا لیڈر بننے کے شوق نے بھارت کو عالمی سطع پر تنہا کر دیا: بھارتی میڈیا

ریسرچ کے مطابق مسلم حکمرانوں کی انتظامی اور ثقافتی خدمات کو دانستہ طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ اکبر کے وزیر مالیات راجہ ٹوڈر مل کے ریونیو نظام، زمین کے حقوق کی کوڈنگ، آگرہ، فتح پور سیکری اور دہلی جیسے شہروں کی علمی و فن تعمیراتی ترقی، تاج محل، لال قلعہ اور ہمایوں کے مقبرے جیسے شاہکاروں کا ذکر کتاب سے غائب ہے۔

اسی طرح، مغل دور میں پروان چڑھنے والی ہند اسلامی تہذیب، صلح کل کی پالیسی، خیال اور قوالی جیسی موسیقی کی اصناف، اردو و فارسی ادب کی سرپرستی ، یہ سب اب طلبہ کی نظروں سے اوجھل کر دی گئی ہیں۔ دہلی سلطنت کو صرف سیاسی عدم استحکام اور مندروں کی تباہی کے دور کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جبکہ قطب مینار، اور ہند-ایرانی طرز تعمیر کے اثرات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ علاء الدین خلجی کی معاشی اصلاحات اور نرخوں پر کنٹرول جیسے اقدامات کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں۔

آزاد ریسرچ کے مطابق یہ صرف تعلیمی کوتاہی نہیں بلکہ ایک شعوری اقدام ہے، جس کا مقصد بھارتی تاریخ سے مسلمانوں کی مثبت موجودگی کو مٹانا ہے۔ اس عمل کے ذریعے نوجوان ذہنوں میں یہ پیغام راسخ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان صرف حملہ آور، ظالم اور تباہ کار تھے، جبکہ ہندو مظلوم اور مزاحمت کرنے والے۔

یہ دوٹوک، فرقہ وارانہ بیانیہ اس حقیقت کو جھٹلا دیتا ہے کہ بھارت کی اصل تاریخ ہندو مسلم باہمی اشتراک، ثقافتی امتزاج، اور مل جل کر بننے والی تہذیب پر مبنی ہے۔ اس نصاب میں صرف مسلم حکمرانوں کو بدنام نہیں کیا گیا، بلکہ ہندو انتہا پسندی کے غیر آرام دہ حقائق جیسے 2002 کے گجرات فسادات یا مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے اور آر ایس ایس کے تعلقات کا ذکر بھی خاموشی سے نکال دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ، ٹرمپ ثالثی کے دعوے اور انتخابی بے ضابطگیوں کا معاملہ، کانگریس کا مودی سرکار کا گھیرا تنگ کرنے کا منصوبہ

آزاد ریسرچ کے مطابق 2017 سے اب تک NCERT کی درسی کتب میں بارہا سیاسی بنیادوں پر تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔ مغل دور کی حکمرانی، ثقافت اور انتظامی پہلوؤں پر اب بات نہیں کی جاتی۔ بھکتی-صوفی تحریک پر مکمل اسباق نکال دیے گئے ہیں۔ تقسیم اور بعد از آزادی فرقہ وارانہ فسادات کو نرم اور مبہم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ تبدیلی محض تاریخ کو درست کرنے کی نہیں، بلکہ مکمل طور پر قابو پانے کی کوشش ہے۔ جب کلاس روم میں بچوں کو بار بار سکھایا جائے کہ مسلمان حکمران صرف حملہ آور تھے اور ہندو صرف محب وطن، تو اس سے ذہنوں میں نفرت، تعصب اور تقسیم کا بیج بویا جاتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *