بھارت-فرانس انجن معاہدہ: 61 ہزار کروڑ کا دفاعی منصوبہ یا خطے میں ہتھیاروں کی دوڑکا آغاز ؟

بھارت-فرانس انجن معاہدہ: 61 ہزار کروڑ کا دفاعی منصوبہ یا خطے میں ہتھیاروں کی دوڑکا آغاز ؟

بھارت اور فرانس کے درمیان 61,000 کروڑ روپے کے جنگی انجن معاہدے نے نہ صرف دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات کو نئی جہت دی ہے، بلکہ جنوبی ایشیا کی سلامتی کے حوالے سے اہم سوالات بھی کھڑے کر دیے ہیں۔

بھارت کی وزارتِ دفاع نے فرانس کے ساتھ نیکسٹ جنریشن  کے لڑاکا طیاروں کے انجنز کی مشترکہ تیاری کے لیے 61,000 کروڑ روپے کے منصوبے کی سفارش کی ہے، اس معاہدے کا مقصد ایک 120 کلو نیوٹن تھرسٹ والا انجن تیار کرنا ہے، جو مستقبل کے لڑاکا پلیٹ فارمز جیسے ایڈوانسڈ میڈیم کومبیٹ ایئرکرافٹ (AMCA) کے لیے استعمال ہوگا۔

فرانسیسی کمپنی Safran نے مکمل ٹیکنالوجی کی منتقلی کی پیشکش کی ہے، جس نے اسے برطانوی Rolls Royce پر سبقت دلائی ہے۔

دھوکہ دہی پر مبنی “خود انحصاری”؟

آذاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق یہ صرف دفاعی ٹیکنالوجی کی شراکت نہیں، بلکہ بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کی تعمیر کا حصہ ہے، جو اب ایک ایسے مقام پر آ پہنچی ہے جہاں یہ خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے،  اگر یہ فرانسیسی اور امریکی شراکتیں مکمل طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوئیں، تو بھارت کو پہلی بار جدید لڑاکا طیارے مکمل طور پر ملکی سطح پر تیار کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے تھے ، امریکی صدر ٹرمپ

اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی ریاست، جو پہلے ہی داخلی سطح پر ہندو قوم پرستی کے بیانیے اور بیرونی سطح پر جارحانہ خارجہ پالیسی کی حامل ہے، اب اس بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کو بطور سیاسی آلہ استعمال کر سکتی ہے۔ یہ صرف “آتم نربھرتا” (خود انحصاری) کا سوال نہیں رہا بلکہ  یہ اس بات کا خطرناک اشارہ ہے کہ ایک نظریاتی حکومت اپنی فوجی برتری کو سیاسی و جغرافیائی غلبے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

خطے کی سیکیورٹی پر سنگین سوالات

ایسے وقت میں جب جنوبی ایشیا پہلے ہی شدید کشیدگی کا شکار ہے، بھارت کے یہ اقدامات ایک نئی اسلحہ دوڑ کو جنم دے سکتے ہیں، امریکہ سے GE-F404 انجنز کی ترسیل، LCA Mk-1A اور LCA Mk-2 کے لیے F414 انجنز کی مشترکہ تیاری کی بات چیت، اور اب فرانس کے ساتھ 61,000 کروڑ روپے کا انجن منصوبہ ،  یہ تمام پیش رفتیں ایک “دو محاذی” حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں بھارت مغرب سے تکنیکی مہارت حاصل کر کے داخلی سطح پر دفاعی پیداوار کو بڑھا رہا ہے۔

لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا بھارت واقعی اسلحہ سازی میں خود کفیل ہونے کی کوشش کر رہا ہے یا ایک قوم پرستانہ حکومت اپنی طاقت کو مزید مسلط کرنے کے لیے اس صلاحیت کا استعمال چاہتی ہے؟ ماضی کے تجربات اور بی جے پی-آر ایس ایس کے رویے کو دیکھتے ہوئے، اس سوال کا جواب زیادہ پر امید نہیں۔

 یہ خبر بھی پڑھیں :بھارت کا جنگی جنون سر چڑھ کر بولنے لگا، نئے راکٹ سسٹم ’پناکا۔4 کی تیاری شروع کردی

بھارت کا Kaveri انجن پروگرام، جو دہائیوں سے جاری ہے، ابھی تک لڑاکا طیاروں کے لیے مطلوبہ تھرسٹ پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے، اب اس کا استعمال UCAVs (غیر انسان بردار لڑاکا ڈرونز) اور بحری پلیٹ فارمز کے لیے کیا جا رہا ہے۔

 یہی ناکامی بھارت کو بیرونی پارٹنرز کی جانب لے گئی  لیکن ان شراکتوں کے ذریعے حاصل ہونے والی طاقت اگر ایک شدت پسند سیاسی ایجنڈے کے زیرِ اثر ہو، تو یہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتی ہے ۔

آزاد ریسرچ ڈیسک اس معاملے کو صرف تکنیکی یا تجارتی زاویے سے نہیں دیکھتا، بلکہ اس کے سیاسی، عسکری اور جغرافیائی اثرات کو سامنے لاتا ہے ، بھارت کی یہ نئی فوجی شراکتیں صرف دفاعی تیاری نہیں بلکہ طاقت کے توازن میں خطرناک تبدیلی کی علامت ہیں،  جب ہائپر نیشنلزم اور اعلیٰ ٹیکنالوجی اکٹھے ہو جائیں، تو یہ آمریت کے راستے کی ہمواری کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں :مودی سرکار کا ایک اور فالس فلیگ ڈرامہ بے نقاب، جنگی جنون میں مبتلا پراپیگنڈہ ناکام

یہ وقت ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک، خصوصاً پاکستان، ان پیش رفتوں کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں اور عالمی برادری بھی بھارت کی بڑھتی عسکری صلاحیت کو صرف “مارکیٹ” نہ سمجھے بلکہ ایک ممکنہ خطرہ جانے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *