یورپی یونین کی جانب سے نئی پابندیوں کے اعلان پر بھارت نے محتاط بیان دیتے ہوئے ’یکطرفہ اقدامات‘ کو تسلیم کرنے انکار کیا ہے جس پر بھارت کے اپنے تجزیہ کاروں نے مودی سرکار کو ’سٹنگ ڈَک‘ سے تشبیح دی ہے اور کہا ہے کہ مودی حکومت کے سخت بیانیہ، عالمی ساکھ اور اس کی عملی خارجہ پالیسی کے درمیان بہت بڑا خلا ہے۔
بھارت کے سرکاری ترجمان شری رندھیر جیسوال نے یورپی یونین کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’بھارت کسی بھی یکطرفہ پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتا‘ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں اور اپنی قانونی ذمہ داریوں کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔’ حکومت نے توانائی کے تحفظ کو شہریوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ’انتہائی اہم ‘قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’تجارتی معاملات میں دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے‘۔
India often resembles a sitting duck for others — whether it’s territorial encroachments, cross-border terrorist infiltration, punitive tariffs or targeted sanctions. India’s typical response rarely goes beyond rhetorical outrage, with little in the way of meaningful retaliation. pic.twitter.com/lthyUm4H0C
تاہم بھارت کے اسٹریٹجک مفکر، مصنف، تبصرہ نگار اور پروفیسر ڈاکٹر برہما چیلانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں مودی سرکار کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ مودی سرکار کا کسی بھی عالمی دباؤ پر ممکنہ جوابی اقدام سفارتی دباؤ سے خالی ہوتا ہے، یورپی یونین کی پابندیاں ایک بار پھر بھارت کی روایتی روش کو اجاگر کرتی ہیں کہ بلند و بانگ بیانات تو دیے جاتے ہیں، لیکن عملی اقدامات میں شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر برہما چیلانی نے لکھا کہ یورپی یونین کی پابندیاں بھارت کے عالمی سطح پر ایک سِٹنگ ڈَک کی صورت اختیار کرنے کی ایک اور مثال ہے، جو پابندیوں، محصولات اور سرحدی خطرات کو برداشت تو کرتا ہے، مگر مؤثر جواب دینے سے قاصر رہتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی خارجہ پالیسی زیادہ تر نعرہ بازی اور نمائشی اقدامات تک محدود رہی ہے۔
ادھر آزاد ریسرچ کے مطابق ’ 56 انچ کا سینہ‘ والی سفارت کاری، جس کا بہت چرچا کیا گیا، اب تک کوئی خاطر خواہ حکمتِ عملی یا کامیابی نہیں دے سکی ہے۔
’آزاد ریسرچ ‘ کے مطابق معروف ماہرِ امور خارجہ ڈاکٹر برہما چیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت کا ردعمل اکثر محض بیانات تک محدود ہوتا ہے اور “اس میں مؤثر بدلہ یا کارروائی کم نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے‘۔
جبکہ بھارت کو مختلف محاذوں پر بار بار چیلنجز درپیش ہیں، دہشتگردی، تجارتی جنگ اور اسٹریٹجک دباؤ، لیکن قیادت علامتی غصے اور محض ردعمل کی حد سے باہر نکلتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق بھارت کی ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کا نعرہ اب ’اسٹریٹجک مفلوجی‘ میں بدل چکا ہے۔ مودی حکومت کی قوم پرستی، جو اندرونِ ملک تو بھرپور نعرہ بنتی ہے، مگر بین الاقوامی سطح پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں، یورپی یونین کی پابندیوں کا واقعہ اس بے اثری کی تازہ مثال ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق ہر بے جواب چیلنج کے ساتھ، بھارت کی ابھرتی طاقت کی کہانی کمزور پڑتی جارہی ہے۔ عالمی طاقتیں جب بھارت کی برداشت کو آزماتی ہیں، تو حکومت کی عملی سفارت کاری کے بجائے نعروں اور تصویری بیانیوں پر انحصار، بھارت کی ساکھ کو مزید کمزور کرتا ہے۔
’نیا بھارت‘ جس کا خواب دکھایا گیا تھا، اب ایک ایسے ملک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جو دعوے تو بڑے کرتا ہے، مگر عملی اقدامات میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق اگر بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقت پسندی اور مؤثر حکمتِ عملی سے ہم آہنگ نہ کیا، تو وہ تماشائی بن کر رہ جائے گا اور عالمی منظرنامے پر اس کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جائے گی۔