بھارت کے انتہا پسند وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے مخصوص پروپیگنڈا شو من کی بات میں ایک بار پھر اپنے مخصوص انداز میں قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔
یہ ریڈیو پروگرام اب ایک ایسی شعبدہ بازی میں بدل چکا ہے جس کا اصل مقصد صرف اور صرف عوام کی توجہ بھارت کے سنگین مسائل سے ہٹانا، مودی سرکار کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دینا ہے۔
مودی کے بقول وہ قوم کو ترقی کی خبریں سناتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ “من کی بات” درحقیقت صرف مودی کی بات ہے ایک طرفہ، خود پسندی میں لت پت، جھوٹ اور مبالغے پر مبنی تقریر جس میں نہ تو کوئی سوال پوچھ سکتا ہے، نہ کوئی جواب مانگ سکتا ہے، اور نہ ہی سچائی برداشت کی جاتی ہے۔
اپنے تازہ ترین خطاب میں مودی نے چاند مشن، خلا بازوں، ثقافتی ورثے، نوجوانوں کی قربانی اور اولمپکس جیسے موضوعات کا سہارا لے کر قوم کو ایک بار پھر فرضی فخر، کھوکھلے جذبے اور جعلی شان و شوکت کے خواب دکھانے کی کوشش کی۔
وہ ملک جہاں کروڑوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جہاں عورتیں ریپ کلچر کے خلاف سڑکوں پر نکلتی ہیں جہاں اقلیتیں خوف کے سائے میں جیتی ہیں، وہاں کا وزیر اعظم لوگوں کو چاند پر بھیجنے کی بات کرتا ہے کیا یہ دوغلا پن نہیں؟
مودی نے “من کی بات” کو کبھی صفائی مہم، کبھی خواتین کے حقوق، کبھی نوجوانوں کی شمولیت اور کبھی ہندوستانی ثقافت کے فروغ کے نام پر استعمال کیا، مگر ان تمام عنوانات کے پیچھے صرف ایک ہی نیت کارفرما رہی اپنی شخصیت پرستی کو بڑھاوا دینا اور ہندوتوا کا زہر پوری ریاست میں پھیلانا۔
یہ ریڈیو شو اب محض ایک ٹول ہے جس کے ذریعے مودی ہر مہینے قوم کے دماغ پر حملہ کرتا ہے، انہیں جھوٹے خواب بیچتا ہے اور سچ سے نظریں چرا لیتا ہے۔
اپنی تازہ تقریر میں اس نے ’گیان بھارت مشن‘ کی بات کی جس کے تحت قدیم بھارتی مخطوطات کو جمع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کی زبان میں تو یہ ایک علمی مشن ہے، مگر اصل میں یہ منصوبہ بھی ہندوتوا کی جعلی علمی تاریخ کو فروغ دینے اور مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کی علمی خدمات کو مٹانے کا ایک اور ناپاک منصوبہ ہے۔
یہ مشن مخطوطات کو محفوظ کرنے کا نام لے کر دراصل ہندو بالادستی پر مبنی نظریہ کو نصابوں، تحقیقی اداروں اور نئی نسل کے ذہنوں پر مسلط کرنے کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔
من کی بات” کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے بی جے پی نے منظم انداز میں اپنی پارٹی کی سرگرمیوں سے جوڑ دیا ہے۔ گاؤں گاؤں، یونٹ یونٹ، ہر کارکن کو حکم ہے کہ وہ اس تقریر کو سننے کا اہتمام کرے، جیسے کہ مودی کی زبان سے الفاظ نہیں بلکہ کوئی بہت خاص چیزنکلے گی۔
یہ رویہ نہ صرف ایک سیاسی رہنما کے آمرانہ مزاج کی غمازی کرتا ہے بلکہ ایک جمہوری ریاست کو مذہبی و نظریاتی غلامی میں دھکیلنے کی کھلی سازش ہے۔
مودی ہر خطاب میں قوم کو فرضی دشمنوں سے ڈراتا ہے کبھی پاکستان، کبھی چین، کبھی مسلمان، کبھی مغرب وہ اپنے حامیوں کے ذہنوں میں مسلسل خطرے، خوف، جنگ اور برتری کے بیج بوتا ہے تاکہ وہ عقل، دلیل اور سوال کرنے کی جرات نہ کر سکیں۔
من کی بات” ان سب کو ایک باقاعدہ سانچے میں ڈھالنے کا ذریعہ ہے،اصل سوال یہ ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم اگر ہر مہینے اپنی خود ساختہ باتوں کو ریاستی میڈیا پر تھوپتا ہے، اسے پارٹی ورکرز پر مسلط کرتا ہے، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں سننے کا حکم دیتا ہےاور ہر تقریر میں صرف اپنی ذات کا ڈھول بجاتا ہے تو وہ جمہوریت کہاں رہ جاتی ہے؟
یہ بھارتی عوام کو مفلوج رکھنے کا منصوبہ ہے تاکہ وہ سوچنا، سوال کرنا، احتجاج کرنا اور سچ بولنا بھول جائیں، پاکستان کے خلاف مودی کے زہر آلود پروپیگنڈے، مسلمانوں کے خلاف بغضاور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی عادت نے اس پروگرام کو ایک نفسیاتی ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
مودی اگر واقعی قوم سے مکالمہ چاہتے ہیں تو وہ کھلے سوالات کا سامنا کریں، تنقید برداشت کریں اور پارلیمنٹ میں جواب دیں ریڈیو پر یک طرفہ غزل سنانے سے قومیں نہیں چلتیں بلکہ صرف خوشامدی غلام پیدا ہوتے ہیں۔