تاجکستان کےعلاقے ختلون میں 26 نومبر 2025 کی رات افغانستان سے کیے گئے ایک ڈرون حملے میں LLC شوہین SM کمپنی کے تین چینی ملازمین ہلاک ہو گئے۔
تاجک حکام کے مطابق یہ کیمپ ختلون میں واقع “یول” بارڈر ڈیٹیچمنٹ کی پہلی بارڈر گارڈ پوسٹ “استقلال” کے کنٹرول والے علاقے میں تھا، جہاں دہشت گردانہ کارروائی ڈرون کے ذریعے کی گئی، جس پر دستی بم اور آتشیں اسلحہ نصب تھا۔
تاجک حکام کے مطابق افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کی تخریبی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں اور افغان طالبان رجیم کے تمام وعدوں کے باوجود پڑوسی ممالک پر دہشت گردانہ حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں چین کے شہری متاثر ہوئے، جس پر تاجک حکومت نے شدید تشویش اور احتجاج کا اظہار کیا ہے۔
تاجکستان کی جانب سے اس دہشت گردانہ حملے کی سخت مذمت کی گئی ہے اور افغان حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سرحدی سلامتی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ اس طرح کے حملوں سے مستقبل میں محفوظ رہا جا سکے۔ حکام نے کہا کہ سرحدی علاقے میں موجود کمپنیوں اور مقامی افراد کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور اس ضمن میں موثر نگرانی اور حفاظتی اقدامات لازمی ہیں۔
تاجک حکام کے مطابق یہ حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کی بڑھتی ہوئی تخریبی کارروائیوں کی تازہ مثال ہے، جو نہ صرف تاجکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔ اس حملے کے بعد تاجکستان نے افغان سرحدی فورسز سے فوری تعاون اور دہشت گرد عناصر کی نشاندہی کے لیے مشترکہ کارروائیوں کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے چینی مزدوروں پرافغان ڈرون حملے کی تصدیق کےبعد شدید مذمت کی گئی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ، آتشیں اسلحہ اور دستی بموں سے لدے ڈرون سے کیا گیا، جس میں چین کے تین شہری مارے گئے۔
تاجکستان اور افغانستان کی سرحدی پہاڑی علاقوں پر عسکریت پسندگروہ سرگرم ہیں دونوں ممالک کےدرمیان یہ سرحد ی علاقہ 840میل تک پھیلاہواہے افغان جرائم پیشہ گروہ سرحدی علاقوں میں حالات کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔”
تاجک صدر امام علی رحمان، جو 1992 سے اقتدار میں ہیں، طالبان پر کھلے عام تنقید کرتے ہیں۔ صدر امام علی رحمان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان ا فغانستان میں مقیم تاجک نسل کے حقوق کا احترام کریں جو اس وقت افغانستان کی آبادی کاتین چوتھائی حصہ ہے۔
خیال رہے کہ تاجکستان میں اس وقت متعدد چینی کمپنیاں کان کنی اور قدرتی وسائل کےشعبوں میں کام کررہی ہیں۔