لاہور ہائی کورٹ نے معروف مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اُن کی حراست کے معاملے پر اہم فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے یہ فیصلہ فریقین کے بھرپور دلائل سننے، مقدمے کا ریکارڈ دیکھنے اور کیس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد محفوظ کیا تھا۔
سماعت کے دوران مرزا کی قانونی ٹیم نے مؤقف اختیار کیا کہ مقدمے میں شامل الزامات نہ صرف غیر واضح ہیں بلکہ انہیں ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا۔
وکلا نے عدالت کو بتایا کہ گرفتاری کے حالات بھی مشکوک نوعیت کے تھے اور تفتیشی اداروں کو دی گئی معلومات یا شواہد میں کہیں بھی ایسا مواد موجود نہیں جو سخت قسم کی کاروائی کا جواز فراہم کرے۔ ان کے مطابق مرزا نے ابتدا سے ہی تفتیش کے ہر مرحلے میں تعاون کیا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت یا قانون شکنی کا امکان پایا جاتا ہے۔
عدالت نے سماعت کے دوران پراسیکیوشن سے اہم سوالات پوچھے، جن میں مقدمے کے اندراج کی اصل بنیاد، تفتیش میں ہونے والی پیش رفت، اور ملزم کے ممکنہ طور پر تفتیش پر اثر انداز ہونے یا فرار کے خطرے سے متعلق استفسار شامل تھا۔ پراسیکیوشن اس حوالے سے کوئی واضح اور مضبوط مواد پیش نہ کر سکی۔
تمام دلائل سننے کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ ضمانت کے لیے درکار قانونی تقاضے پورے ہوتے ہیں، لہٰذا درخواست منظور کی جاتی ہے۔ فیصلے کے بعد عدالت کے باہر موجود مرزا کے حامیوں نے اس پیش رفت کو اُن کے لیے بڑی قانونی کامیابی قرار دیا۔
سماعت کے موقع پر سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بڑی تعداد میں تعینات رہے تاکہ کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو۔ کارروائی مجموعی طور پر پُرسکون ماحول میں جاری رہی۔
قانونی ماہرین کے مطابق عدالت کا فیصلہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ ضمانت کسی بھی مقدمے میں ملزم کی بے گناہی یا اس کے خلاف الزامات کے ثابت ہونے کا حتمی تعین نہیں ہوتا، بلکہ یہ صرف اس اصول کی پاسداری ہے کہ عدالتی کارروائی ملزم کو غیر ضروری حراست میں رکھے بغیر بھی جاری رہ سکتی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ عدالتی فیصلے کی تفصیلی کاپی جلد جاری کر دی جائے گی، جس سے آئندہ قانونی پیش رفت کا تعین ہوگا۔ دوسری جانب مرزا کی دفاعی ٹیم نے عدالت کے فیصلے پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں عدالتی نظام پر مکمل اعتماد ہے۔