9مئی واقعات اور فیض حمید کے پی ٹی آئی رہنماؤں سے روابط سے متعلق کرنل (ر) انعام الرحیم کے تہلکہ خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ 9 مئی واقعات کے بعد متعدد مفرور یوٹیوبرز اور پی ٹی آئی رہنماوں نے فیض حمید کے فارم ہاؤس میں پناہ لی ہوئی تھی۔
ہم نیوز کے پروگرام ’’فیصلہ آپ کا‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جو کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو شواہد دیکھے ہیں، ان کے مطابق 9 مئی کے واقعات کے دوران مفرور یوٹیوبرز اور دیگر افراد نے اس وقت فیض حمید کے فارم ہاؤس میں پناہ لی ہوئی تھی۔ ان کے بقول یہ معاملہ محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے پس پردہ ایک منظم رابطہ کاری موجود تھی۔
انہوں نے بتایا کہ فیض حمید نے اپنی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر اپنا سم کارڈ تبدیل کیا۔ ہر بار وہ صرف ایک فرد، مثلاً اسد قیصر، کو فون کرتے اور اس سے کہتے کہ وہ ان کا نیا نمبر دیگر افراد تک پہنچا دے۔ تاہم کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق فیض حمید اس بات کا اندازہ نہ کر سکے کہ پی ٹی آئی کے تمام اہم رہنماؤں کے نمبرز پہلے ہی نگرانی میں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے فیض حمید کا نیا سم کارڈ ہر مرتبہ محض پندرہ منٹ کے اندر ٹریس کر لیا جاتا تھا۔ کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق فیض حمید 9 مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی کی تمام اہم شخصیات سے واقعے سے پہلے اور بعد مسلسل رابطے میں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیض حمید کی جانب سے دی جانے والی تمام ہدایات کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔
کرنل (ر) انعام الرحیم نے عمران خان، سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید اور سابق چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار کے مبینہ روابط سے متعلق بھی اہم انکشافات کیے ہیں۔
کرنل (ر) انعام الرحمٰن کے مطابق آرمی ایکٹ کی دفعہ 31 کے تحت یہ واضح قانونی شق موجود ہے کہ اگر کوئی سویلین فرد فوج کے اندر بددلی، بے چینی یا بغاوت پھیلانے کی کوشش کرے اور اس کے شواہد دستیاب ہوں تو ایسے شہری پر بھی کارروائی کی جا سکتی ہے اور اس کا ٹرائل ممکن ہے۔ ان کے بقول یہ قانون اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا، تاہم حالیہ معاملات میں اس کی اہمیت دوبارہ سامنے آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب عمران خان جیل میں تھے تو فیض حمید نے جیل انتظامیہ کے مختلف افراد کے ذریعے ان تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق یہ تمام کوششیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور یہ بھی درج ہے کہ فیض حمید نے کن کن جیل افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ فیض حمید یہ سمجھتے تھے کہ انہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ ان کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سابق خفیہ ادارے کے سربراہ، جو ریاست کا ایک اہم ستون سمجھے جاتے تھے، کا فوجی حکام کے ذریعے ٹرائل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ نہایت اہم تھا اور اس کا مقصد ریاستی اداروں کے اندر نظم و ضبط قائم کرنا تھا۔
ان کے مطابق آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل عاصم منیر نے یہ فیصلہ کیا کہ نظام کی درستگی کا آغاز اندر سے ہونا چاہیے اور اسی سوچ کے تحت یہ قدم اٹھایا گیا۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے مزید کہا کہ فیض حمید یہ تمام سرگرمیاں اس لیے کر رہے تھے کیونکہ ان کے براہِ راست روابط اُس وقت کے چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار سے تھے۔
انہوں نے سینئر صحافی فخر درانی کے ایک پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹاپ سٹی کے مالک کے گھر سے ضبط کی گئی دو انتہائی قیمتی گاڑیاں فیض حمید نے جسٹس (ر) ثاقب نثار کو دی تھیں، جن میں سے ایک گاڑی جسٹس (ر) ثاقب نثار نے خود استعمال کی جبکہ دوسری اپنے بیٹے کو دے دی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق اس خبر کے بعد فخر درانی نے جسٹس (ر) ثاقب نثار سے رابطہ کر کے تردید کی درخواست کی، تاہم آج تک اس رپورٹ کی تردید نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ایک رینجرز افسر نے انہیں بتایا کہ فیض حمید کے ٹرائل کے دوران جب ٹاپ سٹی کے مالک سے برآمد شدہ اشیاء واپس لی جا رہی تھیں تو ایک گاڑی جسٹس (ر) ثاقب نثار کے بیٹے سے ذاتی طور پر وصول کی گئی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق یہ تمام حقائق ایک سنگین تصویر پیش کرتے ہیں جس پر مکمل اور شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں۔