پاکستان میں موبائل فون صارفین کی ایک بڑی تعداد طویل عرصے سے موبائل سروس کی سست رفتاری اور ناقص معیار کی شکایات کر رہی ہے۔
جہاں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اکثریتی آبادی روزمرہ رابطوں کے لیے موبائل فون استعمال کر رہی ہے، وہیں صارفین کی جانب سے نیٹ ورک اور کال سروس کے مسائل پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب ان مسائل کی ایک بڑی وجہ سامنے آ گئی ہے۔
وفاقی وزیر امین الحق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے موبائل سروس کے معیار سے متعلق کیے گئے کوالٹی آف سروے پر قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی۔ بریفنگ کے دوران چیئرمین پی ٹی اے نے موبائل سروس کی سست رفتاری کی بنیادی وجہ سے آگاہ کیا۔
چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق ملک بھر میں صرف 15 فیصد موبائل ٹاورز فائبرائزڈ ہیں، جبکہ باقی ٹاورز فائبر آپٹک نیٹ ورک سے منسلک نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فائبرائزیشن کی کمی کے باعث موبائل سروس متاثر ہو رہی ہے اور یہی سست روی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فائبرائزیشن کے بغیر فائیو جی سروس متعارف کروائی گئی تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے کی بریفنگ کے بعد قائمہ کمیٹی کے ارکان نے فائبرائزیشن پلان اور کلسٹرز سے متعلق مزید تفصیلات طلب کر لیں۔ اجلاس کے دوران ارکان کمیٹی نے موبائل کوالٹی آف سروس پر شکایات کے انبار لگا دیے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی حکام ہر بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب کچھ درست ہے، لیکن آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد سے موبائل سروس مسلسل خراب رہی ہے۔ ان کے مطابق موبائل ٹاورز پر سولر سسٹم اور بیٹری کے مسائل بھی سروس متاثر ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔
کمیٹی ارکان نے کہا کہ جب تک حکومت یہ تسلیم نہیں کرے گی کہ موبائل سروس میں واقعی مسئلہ موجود ہے، اس وقت تک حل ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب چیئرمین پی ٹی اے مسئلہ ماننے کو تیار ہی نہیں تو بات چیت کا فائدہ بھی نہیں رہتا۔
رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے پی ٹی اے کے چوتھے کوالٹی آف سروے کے دعوے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ یہ سروے کہاں کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کوالٹی آف سروے کمیٹی ارکان کے سامنے کرایا جائے۔
اجلاس کے اختتام پر چیئرمین قائمہ کمیٹی امین الحق نے کہا کہ کمیٹی ارکان کو ڈیٹا اور کال سروس کے معیار پر اعتماد نہیں رہا۔ ان کے مطابق کاغذات میں تو سب کچھ بہتر دکھائی دیتا ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکٹرم کی نیلامی ہو جاتی ہے تو صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے اور وزارت آئی ٹی کو اس حوالے سے مثبت اور فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔