بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں عوام نے بھارت کی مداخلت کے خلاف زبردست احتجاج کیا ہے جو عثمان ہادی کے قاتلانہ حملے اور بعد میں ان کے انتقال کے بعد شدت اختیار کر گیا۔ عثمان ہادی انقلاب منچہ کے رہنما تھے، ڈھاکہ میں نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے تھے اور بعد ازاں ان کا انتقال ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق انہیں بھارت کے فون نمبرز سے قتل کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ عثمان ہادی پر حملے میں ملوث افراد کو فوری طور پر حوالہ کیا جائے،عثمان ہادی کی موت کی خبر کے بعد ڈھاکا میں مظاہرے شروع ہوگئے جن میں مظاہرین نے وطن شیخ مجیب الرحمٰن کا گھر نذرِ آتش کر دیا۔
احتجاج کے دوران بنگلہ دیشی عوام نے مودی سرکار اور بھارتی سفاک پالیسیوں کے خلاف شدید غصہ ظاہر کیا اور کہا کہ بھارتی مداخلت اور قاتلوں کی پشت پناہی نے خطے کو تصادم کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ مظاہروں میں شیخ حسینہ واجد کی بھارتی سرپرستی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جسے عوام نے خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف احتجاج بھارتی سفارتی تنصیبات کے سامنے دوسرے روز بھی جاریہے۔ بھارتی جریدے دکن ہیرلڈ کے مطابق احتجاج کے باعث بھارتی سفارت خانے کا ویزا سینٹر تاحال بند ہے۔
بنگلہ دیشی رہنما راشد پردھان نے واضح اعلان کیا کہ اس بار احتجاج میں انتظامی حد تک رکاوٹ کی گئی، مگر آئندہ بھارتی سفارت خانے میں داخل ہونے سے نہیں رکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کو مزید مداخلت کی کوئی اجازت نہیں دی جائے گی اور قاتلوں کی سرپرستی کرنے والے بھارتی حکمرانوں کو دوٹوک پیغام دیا گیا ہے۔
مظاہرین نے اعلان کیا کہ علاقائی خودمختاری پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور اگر بھارت نے بنگلہ دیش پرعدم استحکام مسلط کرنے کی کوشش کی تو عوام کی مزاحمت سرحد پار بھی پہنچ سکتی ہے۔
یہ احتجاج بنگلہ دیشی عوام کی طرف سے بھارتی بالادستی اور مداخلت کے خلاف مضبوط پیغام ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور ملکی سلامتی کے لیے ہر حال میں کھڑے رہیں گے۔