وزیراعلی خیبر پختوخواہ کا این ایف سی اور وسائل کی تقسیم پر گمراہ کن پروپیگنڈا اور اصل حقائق

وزیراعلی خیبر پختوخواہ کا این ایف سی اور وسائل کی تقسیم پر گمراہ کن پروپیگنڈا اور اصل حقائق

این ایف سی ایوارڈ اور وسائل کی تقسیم کے معاملے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو گمراہ کن پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے وفاقی سطح پر پیش کیے گئے اعداد و شمار اور دستاویزات میں مختلف حقائق سامنے آ گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا متعدد مواقع پر وفاق پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ صوبے کو این ایف سی میں مکمل حصہ نہیں دیا جا رہا، جبکہ صوبے میں مس گورننس، ترقیاتی کاموں کی کمی اور دہشت گردی کی صورتحال کی ذمہ داری بھی وہ وفاق پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اصل حقائق اس مؤقف کے برعکس ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وفاق نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کو 2200 ملین روپے ادا نہیں کیے، لیکن حکومتی مؤقف اور دستاویزات کے مطابق خیبر پختونخوا کو این ایف سی کا 100 فیصد حصہ مکمل طور پر ادا کیا جا چکا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق این ایف سی، وفاقی ٹرانسفرز اور مختلف سپورٹ پروگرامز کے ذریعے خیبر پختونخوا کو مجموعی طور پر 8.4 کھرب روپے سے زائد فراہم کیے گئے ہیں۔

ان فنڈز میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کا حصہ، وار آن ٹیرر کے لیے مختص رقوم، براہِ راست ٹرانسفرز، نئے ضم شدہ اضلاع کے لیے معاونت، آئی ڈی پیز کے لیے فنڈز اور گزشتہ 15 سال، یعنی 2010 سے اب تک وفاقی سوشل پروٹیکشن کے اخراجات شامل ہیں۔ دستاویزات کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے نہ صرف اپنا 100 فیصد حصہ وصول کیا بلکہ مختلف اضافی وفاقی مدات میں بھی نمایاں معاونت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ پر 8 کمیٹیاں قائم کر دیں

اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2010 سے نومبر 2025 تک ساتویں این ایف سی کے تحت 5,867 ارب روپے صوبے کو قابلِ تقسیم فنڈز کی مد میں ادا کیے گئے۔ اسی عرصے میں 2010 سے اب تک وار آن ٹیرر کے لیے اضافی ایک فیصد کے طور پر 705 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ جولائی 2010 سے نومبر 2025 کے دوران براہِ راست ٹرانسفرز، جن میں تیل و گیس رائلٹیز، گیس ڈیولپمنٹ سرچارج اور نیچرل گیس پر ایکسائز ڈیوٹی شامل ہیں، کے تحت 482.78 ارب روپے منتقل کیے گئے۔

مالی سال 2016 سے 2025 کے دوران بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت خیبر پختونخوا میں بلاشرط اور مشروط کیش ٹرانسفر کی مد میں 481.433 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ 2019 سے نئے ضم شدہ اضلاع کے لیے وفاقی حصہ سے 704 ارب روپے منتقل کیے گئے، جبکہ مختلف سالوں میں آئی ڈی پیز کے لیے اضافی 117.166 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ اس کے علاوہ 17 دسمبر 2025 کو خیبر پختونخوا کو این ایف سی کی دو ہفتہ وار قسط کے طور پر 46.44 ارب روپے جاری کیے گئے۔

مجموعی جائزے کے مطابق جولائی 2010 سے نومبر 2025 کے دوران خیبر پختونخوا کو مختلف مدات میں 8.4 ٹریلین روپے سے زائد ادا کیے گئے، جو تقریباً سالانہ 560 ارب روپے بنتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 825 ارب روپے وفاق کی جانب سے صوبے کے واجب الادا حصے سے زائد ادا کیے گئے، جو دیگر مدات کے تحت تقریباً سالانہ 55 ارب روپے اضافی بنتے ہیں۔

ان تمام حقائق کی بنیاد پر مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا این ایف سی اور وسائل کی تقسیم سے متعلق الزامات سیاسی عزائم، صوبے میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور بیڈ گورننس سے توجہ ہٹانے کے لیے لگا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے الزامات کا مقصد صوبے میں مبینہ طور پر اللیگل سپیکٹرم کے تحت جاری کرپشن کو جاری رکھنا ہے، اور یہ معاملہ اب واضح ہو چکا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جماعت اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پر دہشت گردوں اور کریمنل مافیا کا سیاسی چہرہ بننے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *