پشاور میں 84 فیصد پانی آلودہ، سنگین بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ، یونیسف کی رپورٹ میں انکشاف

پشاور میں 84 فیصد پانی آلودہ، سنگین بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ، یونیسف کی رپورٹ میں انکشاف

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کو پانی اور صفائی کے ایک سنگین بحران کا سامنا ہے، جہاں شہریوں کو دستیاب پینے کے پانی کا بڑا حصہ آلودہ پایا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق شہر میں پانی کی فراہمی کا تقریباً 84 فیصد حصہ مختلف اقسام کی آلودگی کا شکار ہے، جس کے باعث پولیو سمیت دیگر آبی امراض کے پھیلنے کے خدشات میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔

یونیسف کے حالیہ سروے کے مطابق پشاور میں اب بھی تقریباً چار لاکھ افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں، جو صفائی کی خراب صورتحال کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ شہر کی 9.5 فیصد آبادی کے پاس بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں، جس کے نتیجے میں کھلے میں رفعِ حاجت جیسے غیر صحت مند رویے فروغ پا رہے ہیں۔

شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پشاور کی آبادی 24 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس کی سالانہ شرحِ نمو 2.86 فیصد بتائی گئی ہے۔ آبادی میں اس تیز رفتار اضافے کے باعث پہلے سے کمزور پانی اور صفائی کے نظام پر شدید دباؤ پڑ رہا ہے، جس سے مسائل مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں سیکورٹی فورسز کی دو مختلف کارروائیاں، بھارتی فتنہ الخوارج کے 9دہشتگرد ہلاک

یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کے تقریباً 80 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہیں، جبکہ صرف 20 فیصد پانی کو پینے کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 79.6 فیصد علاقوں میں پانی کی دستیابی مناسب ہے اور 83.4 فیصد گھروں میں پانی موجود ہے، تاہم اصل مسئلہ پانی کی مقدار نہیں بلکہ اس کا معیار ہے۔

رپورٹ کے مطابق ای کولی بیکٹیریا کی آلودگی بڑے پیمانے پر پائی گئی ہے، جو 13.6 فیصد پانی کے ذرائع کو متاثر کر رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 12.9 فیصد ریکارڈ کی گئی، جبکہ شہری علاقوں میں یہ خطرناک حد تک بڑھ کر 17.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سروے کے مطابق صرف 13.6 فیصد پانی کے نمونے ای کولی سے مکمل طور پر پاک پائے گئے۔

اسی دوران زیرِ زمین پانی کی سطح میں بھی خطرناک حد تک کمی سامنے آئی ہے۔ کے پی موضع مردم شماری 2020 کے مطابق اوسطاً زیرِ زمین پانی کی سطح 188 فٹ تک نیچے جا چکی ہے، جو طویل المدتی پائیداری کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سمیت خیبر پختونخوا کے 5 ایم پی ایز کے خلاف اشتہار جاری

رپورٹ میں کیمیائی آلودگی کو بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق پانی کے نمونوں میں 13.8 فیصد نائٹریٹ، 1.2 فیصد فلورائیڈ، 3.3 فیصد آئرن اور 14.6 فیصد سختی یعنی کیلشیم کاربونیٹ پائی گئی، جو طویل عرصے تک استعمال کی صورت میں انسانی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کھلے میں رفعِ حاجت اور ناقص صفائی کی عادات پولیو اور دیگر آبی بیماریوں کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *