پشاور(عارف خان) خیبر پختونخوا حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے خیبر پختونخوا ہیومن کیپٹل انوسٹمنٹ پروگرام کیلئے عالمی بنک سے لیا گیا31ارب روپے کا قرض غیر ضروری امور پر خرچ کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پروگرام کے تحت سکول سے باہر بچوں کیلئے اے ایل پی پی آئی یو کیساتھ ہونے والے معاہدہ کے پراجیکٹ میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔منصوبے میں بے ضابطگیاں سامنے آنے پر عالمی بنک نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فنڈز پر کٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کیلئے صوبے میں پہلے سے یونیسف فنڈڈ اور عالمی بنک کا پراجیکٹ جاری ہونے کے باوجود ایک ہی طرح تیسرا پروگرام قرضہ لیکر شروع کیا گیا۔خیبر پختونخوا ہیومن کیپٹل انوسٹمنٹ پروگرام کیلئے عالمی بنک سے 115ملین ڈالر کا قرض لیاگیا جس میں خیبر پختونخوا میں سکولوں کی اپگریڈیشن، اضافی کلاس روم کی تعمیر، ڈبل شفٹ پروگرام اور ارلی چائلڈہوڈ ایجوکیشن سمیت متبادل راستے شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا ہیومن کیپٹل انوسٹمنٹ پروگرام کے تحت سکول سے باہر بچوں کو سکول میں لانے کیلئے ایکسلرٹیٹڈ لرننگ پروگرام پی آئی یو کیساتھ 676ملین کا معاہدہ کیا گیا۔
جس کا مقصد پرائمری کے بعد سکول چھوڑنے والے بچوں کو مڈل میں انرول کرنا تھا۔معاہدے کے تحت327 سینٹرز قائم کئے گئے جن میں سے بیشتر میں طلبہ کی تعداد مقرر کر دہ تعداد سے کم تھی جبکہ معاہدہ میں ہر ایک سنٹر میں 35سے40طلبہ کو داخل کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔سنٹرز میں زیادہ تر ان بچوں کو داخل کیا گیاجو پہلے سے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم تھے۔بیشتر سنٹر نجی،سرکاری سکولوں اور مدارس میں قائم کئے گئے جہاں ایک استادکی بجائے 2اساتذہ تعینات کئے گئے۔ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا ہیومن کیپٹل انویسٹمنٹ پروگرام کی جانب سے اے ایل پی پی آئی یو کو ڈیلیوربل بیس ایگریمنٹ کیا گیا معاہدے میں اے ایل پی کی جانب سے کام مکمل ہونے پر فوری فنڈز جاری کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔پراجیکٹ میں بے ضابطگیاں سامنے آنے کے بعد عالمی بنک کی جانب سے فنڈز پر کٹ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور 115ملین ڈالر کی بجائے 65ملین ڈالر قرض خیبر پختونخوا کیپٹل ہیومن انوسٹمنٹ پروگرام کودینے کی سفارش کی گئی۔
اس حوالے سے سیکرٹری محکمہ تعلیم مسعود احمد نے ”آزاد ڈیجیٹل“ کو بتایا پراجیکٹ میں کوئی بے ضابطکگی نہیں ہوئی۔ فنڈز میں کٹوتی عالمی بنک کی جانب سے پراجیکٹ کی ڈیزائنگ میں تبدیلی کے باعث کی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق منصوبے کے تحت چھٹی،ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کو 36ماہ کی بجائے 18ماہ میں مڈل کی تعلیم مکمل کرنا تھی جس میں 10ماہ ششم اور ساتویں جبکہ 8ماہ آٹھویں جماعت کا کورس 8ماہ میں مکمل کرنا تھا، مذکورہ پراجیکٹ صوبے کے ان اضلاع میں شروع کیا گیا جہاں پر آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی گئی تھی جن میں پشاور،ہری پور،نوشہرہ اور صوابی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایک کمرے پر مشتمل 327اے ایل پی سنٹر ز قائم کئے گئے جن میں سے ہری پور میں 34، نوشہرہ میں 114، پشاور میں 107اور صوابی میں 72سنٹرز قائم کئے گئے اور زیادہ تر ان بچوں کو انرول کیا گیا جو پہلے سے زیرتعلیم تھے جن میں 12سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل تھے۔ کچھ بچے ایسے تھے جنہوں نے اسی سال پرائمری تعلیم مکمل کی تھی۔ سکول سے باہر بچوں کیلئے جو معیار ترتیب دیا گیا تھا بیشتر بچے اس پر پورا ہی نہیں اترتے تھے۔ اے ایل پی پی آئی یو کی جانب سے کارکردگی دکھانے اور طلبہ کی تعداد پوری کرنے کیلئے اس قسم کے اقدامات کئے گئے تاکہ معاہدہ میں جو شرط رکھی گئی ہے اس کو پورا کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق 50سنٹرز مدارس،19سنٹرز سرکاری اور 25سے30 نجی سکولوں میں سینٹر قائم کئے گئے جبکہ ہر سنٹر کی تزئین وآرائش کیلئے 60ہزار روپے الگ فراہم کئے گئے جو کہ مجموعی طور 1کروڑ96لاکھ 20 ہزار روپے بنتے ہیں، پراجیکٹ کیلئے 654اساتذہ بھرتی کئے گئے ہرسنٹر میں دو ٹیچرز کو پچیس 25ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی گئی جس سے14 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ خزانے پر ڈالا گیا، اسی طرح مذکورہ پراجیکٹ اساتذہ کیلئے اردو اور انگلش کی ڈکشنریاں 4لاکھ25ہزا ر روپے میں خریدی گئی۔
مانیٹرنگ ٹیموں کی بار بار نشاندہی اور اعتراض پر دس ماہ بعد 20سے کم تعداد والے 10سنٹرز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بچوں کیلئے غیر معیاری بیگز خریدے گئے وہ کچھ ہ ماہ بعد ہی خراب ہو گئے۔ذرائع کے مطابق فی بیگ 1710روپے میں خریدا گیا تھا جس پر 3کروڑ33لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ سال2023 کے دوران ایک کروڑ96لاکھ65ہزار روپے مالیت کے سکول بیگز خریدے گئے جبکہ انہی بچوں کیلئے دوبارہ سال2024میں مزید بیگ خریدنے کیلئے مزید رقم مختص کی گئی۔اسی طرح 18ماہ کے پراجیکٹ کیلئے ایچ ار صوبائی سطح اور ضلعی سطح کی مد میں 36کروڑ37لاکھ85ہزار روپے مختص کئے گئے
جن میں پراجیکٹ ڈائریکٹر اور دیگر ملازمین کی تنخواہوں سمیت سینٹرز میں بھرتی اساتذہ کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اے ایل پی پی آئی یو کی جانب سے آپریشنل کاسٹ کیلئے 8کروڑ88لاکھ روپے رکھے گئے تھے۔ ڈسٹرکٹ اے ایل پی سنٹرز کیلئے 8گاڑیاں کرایہ پر حاصل کی گئیں جس کیلئے 3کروڑ28لاکھ روپے کے فنڈز مختص کئے گئے۔اسی طرح ایک کروڑ 20لاکھ روپے اے ایل پی کے تمام سٹاف کیلئے سہ ماہی نظر ثانی اجلاس میں بطور الاونس خرچ کئے گئے۔ سال میں دو بار ہونے والی نظر ثانی اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام افراد کو دس 10ہزار روپے ٹی اے ڈی دیاگیا۔اسی طرح دفاتر کیلئے آلات،فرنیچر اور سکولو ں کیلئے فرنیچر کی مد میں 19کروڑ 57لاکھ28ہزار روپے خرچ کئے گئے جن میں سے40 لاکھ روپے کے 20لیپ ٹاپ خریدے گئے ہیں،سکولوں کیلئے 11500 کرسیاں 5کروڑ17لاکھ50ہزار کی خریدی گئی
اسی طرح 327سینٹرز میں اساتذہ کیلئے 16لاکھ35ہزار مالیت کی کرسیاں خریدی گئیں،بچوں کو پڑھانے کیلئے 16لاکھ35ہزار کے وائٹ بورڈ،سنٹرز کے باہر سائن بورڈ لگانے کیلئے14لاکھ71ہزار500خرچ کئے گئے۔ عالمی بنک سے منظوری لئے بغیر ہی دو مہینے میں پانچ بار بجٹ میں بھی تبدیلی کی گئی جبکہ عالمی بنک سے منظوری لی گئی اور نہ ہی سیکرٹری ایجوکیشن اور پراجیکٹ سٹرائینگ کمیٹی سے لی گئی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے سال 2023میں شروع ہونے والا پراجیکٹ رواں سال میں اختتام پذیر ہو گا۔ تاہم پراجیکٹ سے تعلیم حاصل کرنے والے کتنے بچے نویں جماعت میں داخلہ لے سکیں گے اوران بچوں کا مستقبل کیا ہو گا اس سے متعلق کوئی واضح گائیڈ لائنز موجود نہیں ہیں۔ 67کروڑ سے زائد فنڈز خرچ کرنے کے باوجود مذکورہ بچوں کی مزید تعلیم حاصل کرنے سے متعلق ہیومن کیپٹل انوسٹمنٹ پروگرام کے پاس کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔