نیب ترامیم کیس، سپریم کورٹ نے حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا

نیب ترامیم کیس، سپریم کورٹ نے حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا

سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی انٹرکورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

آج کی سماعت میں وکیل فاروق ایچ نائیک نےعدالت کو آگاہ کیا کہ وہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ جس پرفاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرا موقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے معاونت کیلئے بلائے گئے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟ ۔
اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟۔
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999میں آیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا 1999میں کس کی حکومت تھی؟نام لے کر بتائیںتو خواجہ حارث نے کہا 1999میں پرویز مشرف کی حکومت تھی ، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا آپکی حکومت آئی تھی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے ،پرویز مشرف نے نیب تو سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنے کیلئے بنایا تھا۔بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
عدالت میں عمران خان کو بھی دلائل دینے کا موقع ملا۔
چیف جسٹس نے عمران خان کو تاکید کی کہ پلیز آپ کیس سے متعلق ہی بات کیجئے گا، ہم صرف موجودہ کیس پر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
عمران خان نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک چیز سمجھ نہیں آئی، اپ نے لکھا میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کون سی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی؟۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اردو میں میں بات کریں تو بہتر ہوگا۔
عمران خان نے عدالت سے شکوہ کیا کہ مجھے تکلیف ہوئی، کہاگیا کہ میں غیرذمہ دار کیریکٹر ہوں جس کے باعث براہ راست نشر نہیں کیاجائےگا۔میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔
جس پرجسٹس امین الدین نے کہا خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا، آپ صرف کیس پر رہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا ۔مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفےکی قیمت کم لگائی۔دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔ میں کہتاہوں نیب کا چیرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان سے استفسار کیا کہ کیا آپکا نیب پر کیا اعتبار رہےگا؟۔
جس پر عمران خان نےجواب دیا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے۔
جس پر عمران خان نے کہا ستائیس سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا۔غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑھے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا۔میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں۔
عدالت نے استفسار کیا’ کیا نیب ایسے ہی برقرار رہے گی ؟‘۔
اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ نیب کو بہتر ہونا چاہیے ، کرپشن کے خلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ نیب کے اختیارات کم ہوں تو میرے لئے اچھا ہوگا۔لوگوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ممالک ہیں، ان کا کیا ہوگا۔
عمران خان کی بات پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ خان صاحب آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے خوفزدہ کررہی ہیں۔حالات اتنے خطرناک ہیں تو اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں۔جب آگ لگی ہوتو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ کو بجھائیں،اپنے گروپ کو لیڈ کریں۔آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں سیاستدان ہوں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔
عمران خان نے کہا میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہواہے۔
جسٹس حسن اظہرنے عمران خان سے استفسار کیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟
عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ بتانا چاہتاہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے۔شرح نمو چھ عشاریہ دو پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی۔ پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتاتھا۔ عمران خان نے کہا کہ میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔
جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس پر کہا کہ ہمیں تو اصل گلہ ہی سیاستدانوں سے ہے۔ اگر ہم بھی خدانخواستہ فیل ہوگئے تو کیا ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر قانون دان فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاروق نائک صاحب آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں مگر آپ سیاستدان بھی احساس کریں۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب نے ریکوڈک کیس میں 10 ارب ڈالر کی ریکوری کیسے لکھ دی؟۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ یہ ہماری ان ڈائریکٹ ریکوری تھی۔
چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کی سرزنش کردی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم ایسی غلط دستاویز دائر کرنے پر اپ کو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے۔ کدھر ہیں پراسیکیوٹر جنرل کیسے یہ غلط دستاویز پیش کیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا اورعدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں ہر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالت کی جانب سےہدایات دی گئیں کہ اگر کسی نے مزید کوئی دستاویز جمع کرانی ہیں تو ایک ہفتے میں کرا سکتے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *