بیرون ملک پی ایج ڈی کیلئے جانیوالے روپوش لیکچراز، قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان

بیرون ملک پی ایج ڈی کیلئے جانیوالے روپوش لیکچراز، قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان

خیبر پختونخوا کی مختلف یونیورسٹیز سے بیرون ممالک پی ایچ ڈی کیلئے جاکر روپوش ہونے والے لیکچرارز نے خزانےکو 54 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔

تفصیلات کے مطابق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے خیبر پختونخوا صوبے کی جامعات میں کروڑوں روپے کی مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی بھی نشاندہی کی ہے، سرکاری خزانے کو کروڑوں روپوں کا نقصان پہنچانے پر خیبر پختونخوا کی مختلف جامعات میں فنڈز کے ضیاع اور بے قاعدگیوں سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اعتراضات اٹھا لئے۔ آڈٹ رپورٹ 2022-23کے مطابق یونیورسٹیوں میں اخراجات کی مد میں بہتر اور موثر نظام نہ ہونے کے باوجود نہ صرف خزانہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ خزانے پر اضافی بوجھ بھی ڈالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی سے مذاکرات، حکومت کا تمام کارکنوں کو رہا کرنے کا اعلان

اڈٹ رپورٹ کے مطابق بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے جانے والے یونیورسٹی لیکچررز جو یونیورسٹی فنڈز پر گئے تھے واپس نہ آنے کے باعث 36کروڑ91لاکھ 47ہزار روپے خزانہ کو نقصان پہنچا ہے، اڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے اخراجات پربیرون ملک ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے لئے جانے والے یونیورسٹی کے لیکچررز کے ساتھ باقاعدہ طور پرلیکچررز اور یونیورسٹی کے درمیان ایک تحریری معاہدہ (بانڈ)کیا جاتا ہے، بانڈ کی مدت اس تاریخ سے شروع ہوتی ہے جب یونیورسٹی لیکچررز بیرون ملک سے ایم ایس یا پی ایچ ڈی مکمل کرکے دوبارہ اپنی ڈیوٹی جوائن کرتے ہیں اور کچھ سالوں کے لئے یونیورسٹی میں ہی پڑھاتے ہیں جیسا کے معاہدہ میں لکھا ہوتا ہے،تاہم واپس نہ آنے والے یا پھر پی ایچ ڈی مکمل کرکے دوسری یونیورسٹی میں پڑھانے والے لیکچررز کو بصورت دیگر وہ تمام اخراجات یونیورسٹی کو واپس ادا کئے جاتے ہیں،

یہ بھی پڑھیں:  جماعت اسلامی کی خواتین نے لاہور میں بھی دھرنا دیدیا 

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے مالی سال 2020-21 کے دوران یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے فیکلٹی ممبران کو ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے قواعد کے مطابق چھٹی دی گئی جس میں ایم ایس اور پی ایچ ڈی کرنے والے لیکچررز کو دو سال اور تین سال کی چھٹی بمعہ تنخواہ دی گئی،جس کے باعث یونیورسٹی پر 47کروڑ83لاکھ کا اضافی بوجھ پڑا تاہم بیرون ملک جانے والے لیکچررز نے نہ تو یونیورسٹی میں دوبارہ اپنی ملازمت شروع کی اور نہ ہی ان پر ہونے والے اخراجات کی ادائیگی کی گئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے صرف دس کروڑ روپے کی ریکوری کی گئی جبکہ باقی کی رقم اب تک ریکور نہیں کی گئی ہے اڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کے اقدامات پر یونیورسٹی کی جانب سے خاموشی کے باعث نادہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے۔

اڈٹ رپورٹ کے مطابق ایڈمیشن کی مد میں یونیورسٹی کے پیسوں کا غلط استعمال کیا گیا ہے، داخلہ فیسوں کی مد میں بینک اکاونٹ میں پیسے جمع نہیں کئے گئے تھے،یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے مالی سال 2020-21 کے اکاؤنٹس کے آڈٹ کے دوران داخلہ فیس کی مد میں 5کروڑ 33لاکھ روپے یونیورسٹی کے مرکزی بینک اکاؤنٹ کی جانب سے بار بار کی درخواستوں کے باوجود جمع نہیں کیے گئے۔ کل رقم میں سے یونیورسٹی کے بینک اکاؤنٹ میں 20لاکھ15ہزار روپے جمع کرائے گئے جبکہ باقی کی رقم سے متعلق بینک کی طرف سے نہ تو تصدیق کی گئی اور نہ ہی اسے بینک اکاونٹ میں ڈالا گیا، آڈٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ماہانہ بنیادوں پر متعلقہ بینک کے ساتھ رسیدوں کو ملانے میں ناکام رہی جو کہ ایک سنگین غلطی تھی جس نے یونیورسٹی کی رسیدوں کے غلط استعمال میں سہولت فراہم کی۔یہ غلطی مالی بدانتظامی کی وجہ سے ہوئی جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کی رسیدوں کا غلط استعمال ہوا۔جب نومبر 2021 میں نشاندہی کی گئی تو بتایا گیا کہ کیس کو ریکوری کے لیے متعلقہ بینک بھیجا گیا ہے اور اس سلسلہ میں کارکردگی رپورٹ ڈی اے سی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی،تاہم ڈے اے سی کی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا متعلقہ رقم کو فوری طور پر ریکور کیا جائے۔

اڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے مالی سال2020-21کے دوران سول ورکس کے لئے تین ٹھیکیداروں 80کروڑ16لاکھ روپے دیئے گئے تھے، تاہم ٹھیکداروں کی جانب سے مقررہ مدت میں تعمیراتی کام مکمل نہیں کیا گیا۔ تاہم مقررہ وقت میں کام مکمل نہ کرنے پر ٹھیکدار وں سے دس فیصد جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور مد میں فراہم کردہ رقم کا دس فیصد 8کروڑ روپے بنتے ہیں جو کہ ٹھیکداروں سے وصول نہیں کئے گئے اور نہ ہی ان پر جرمانہ لگایا گیا جس کے باعث خزانہ کو نقصان پہنچایا گیا، اڈٹ رپورٹ کے مطابق ڈی اے سی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کیس کو پراجیکٹ ایڈوائزری کمیٹی کو بھجوایاجائے گا تاکہ نقصانات کی وصولی کی جائے۔ تاہم تاحال احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے،

یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری نے خیبر پختونخوا حکومت کو للکار دیا

اڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال2020-21 کے دوران یونیورسٹی آف سوات کے مختلف بلاکس کی تعمیر کا ٹھیکہ نجی کمپنی کو دیا گیا جسے ٹھیکیدار مقررہ مدت میں مکمل کرنے میں ناکام رہا اور یونیورسٹی کی جانب سے مذکورہ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا گیا، تاہم مقررہ مدت میں کام مکمل نہ کرنے کی صورت میں یونیورسٹی متعلقہ ٹھیکدار سے دس فیصد جرمانہ وصول کرتا جو کہ 1کروڑ89لاکھ روپے بنتے ہیں ریکور نہیں کئے گئے، جس کے نتیجے میں صوبائی خزانہ کو نقصان پہنچایا گیا۔تاہم اڈٹ رپورٹ کو حتمی شکل دینے تک یونیورسٹی انتطامیہ کی جانب سے اس سلسلہ میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں کی گئی تھی۔
اڈٹ رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے مالی سال2020-21کے دوران دیکھا گیا کہ2کروڑ26لاکھ13ہزار روپے سیلز ٹیکس کے طور پر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے بلوں سے کاٹا گیا تھا۔ تاہم یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی اور آڈٹ کی تاریخ تک یونیورسٹی کے کھاتے میں رکھی گئی۔تاہم مذکورہ رقم صوبائی خزانہ میں جمع نہ کرانے کے باعث سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچایا گیا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *