پاکستان میں پہلا منی سولر گرڈ خیبر پختونخوا کےضلع مہمند میں فعال کر دیا گیا

پاکستان میں پہلا منی سولر گرڈ خیبر پختونخوا کےضلع مہمند میں فعال کر دیا گیا

خیبر پختونخوا کےضلع مہمند کے علاقے میاں منڈی بازار میں 175 کلو واٹ سولر منی گرڈ 4 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت سےتعمیر کرکے فعال کردیا گیا ہے جو پاکستان میں پہلا منی سولر گرڈ ہے اس گرڈ سے ابتدائی طور پر 40 دکانداروں کو بجلی مہیا کی جارہی ہے ۔

خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع کی مارکیٹوں کو سستی بجلی دینے کیلئے 13 مقامات پر سولر منی گرڈ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے تاہم کئی اضلاع میں امن و امان سمیت اراضی کے مسائل کی وجہ سے 9 مقامات پر گرڈ تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا جس سے کل 1 میگا واٹ اور 575 کلو واٹ بجلی پیدا ہوگی جس پر72 کروڑ 97 لاکھ خرچ ہوں گے ،ہر ایک سولر گرڈ کیلئے 7 کنال سے 10 کنال تک اراضی درکار ہے۔ ضلع مہمند کے علاقے میاں منڈی بازار میں 175 کلو واٹ سولر منی گرڈ 4 کروڑ 20 لاکھ پر تعمیر کرکے فعال کردیا گیا ہے جو پاکستان میں منی سولر گرڈ ہے اس گرڈ سے ابتدائی طور پر 40 دکانداروں کو بجلی مہیا کی جارہی ہے ۔ گرڈ صبح 7 بجے سے رات 9 بجے تک بجلی مہیا کرتا ہے ۔ پیدا ہونے والی بجلی کو مارکیٹ میں موجود دکانداروں کو فی یونٹ 16 روپے کے حساب سے فروخت کیا جائے گا لیکن اس وقت مقامی لوگ بل دینے سے انکاری ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی میں واپس نہ لیا گیا تو پاکستان چھوڑ دوں گا، شیرافضل مروت

پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ ارگنائزیشن کی جانب سے مہیا کی جانے والی اعدادو شمار کے مطابق گرڈ سے ماہانہ 3 لاکھ 17 ہزار 226 روپے امدن ہوگی لیکن یہ امدن مارکیٹ کے صدر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس اینڈ پلاننگ کی مشترکہ بینک اکاونٹ میں جمع کیا جائے گا جس کے رولز میں لکھا گیا ہے کہ امدن سے پہلے گرڈ کی مینٹیننس اور اپریشن اخراجات پورے ہوں گے اس کے بعد زیادہ پیسے جمع ہونے کی صورت میں اس ہی علاقے میں ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوں گے ۔ جتنی بجلی پیدا ہوتی ہے اس کو سو سے زائد دکانداروں کو بجلی دی جاسکتی ہے۔ لیکن اس وقت مارکیٹ میں دکاندار سرکاری بجلی کے ساتھ سولر بجلی کا بھی استعمال کرتے ہیں اور صرف 40 دکانداروں نے ہی میٹر لگائے ہوئے ہیں جو بل دیں گے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق پہلے سات قبائلی اضلاع اور چھ ایف ارز میں سولر گرڈ تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا تھالیکن ایف ار لکی مروت اور بنوں مارکیٹ میں جگہ کی غیر موجودگی اور ایف ار کوہاٹ اور ڈی ائی خان میں ٹیکنکل وجوہات کی وجہ سے نو مقامات پر اب تعمیر ہوں گی۔ جو صوبائی حکومت اپنی سالانہ ترقیاتی سکیم سے کرے گی ، نو مقامات پر سولر منی گرڈ کی تعمیر کی ڈیڈ لائن 30 جون 2026 مقرر کی گئی ہے۔ سولر کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انجنیئر اسفندیار خان کے مطابق ایک سولر گرڈ 23 ہزار درخت لگانے کے برابر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگست کے اخر تک ضلع خیبر اور ایف ار پشاور میں بھی سولر گرڈ فعال ہوجائیں گے اگر انہیں جگہ مل جاتی ہے تو سولر انسٹال کرنے اور گرڈ فعال کرنے میں دو ماہ کا وقت لگتا ہے۔ ضلع مہمند میں ہر اس دکان کو بجلی گرڈ سے دیتے ہیں جس کا لوڈ دو سے تین کلو واٹ ہوتا ہے ، وہاں پر موجود فیکٹریاں سارا بجلی ہم سے اچھے نرخ پر وصول کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت ضم اضلاع کو اباد کرنا چاہتی ہے۔

یہ ببھی پڑھیں: لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو آرمی ایکٹ کے مطابق جو سزا بنتی ہے ملے گی، رانا ثنا اللہ

پالیسی انسٹی ٹیوٹ فار ایکیوٹیبل ڈویلپمنٹ میں سولر انرجی پر کام کرنے والی امنہ شہاب کے مطابق جہاں ایک طرف اس کا فائدہ ہے تو دوسری جانب اس کا ٹرائیبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی ( ٹیسکو) کو نقصان بھی ہے کیونکہ کمرشل بجلی جس کا نرخ زیادہ ہے وہ ابھی ٹیسکو سے لینا بند ہوجائے گا ، اس گرڈ سسٹم کا مقامی لوگوں کو زیادہ فائدہ ہے اگر اس کی صیح طریقے سے میٹرنگ کردی گئی اور اس سے امدن بھی پیدا ہوتی ہے تو پھر اس کا مستقبل اچھا ہے اورزیادہ بجلی اگر حکومت کو فروخت نہیں کی جاتی تو پھر بجلی ضائع ہوگی۔ ان کے مطابق پاکستان میں اس طرح کا ماڈل نہیں ہے اور مقامی لوگوں کو اس کا زیادہ فائدہ ہے۔ ان کے مطابق یہ منصوبے کلائمٹ فرینڈلی ہے اور یہ کاربن ایمیشن کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ انرجی جنریٹ کرتا ہے ایک سولر گرڈ 23 ہزار درخت لگانے کے برابر ہیں ۔
اس منصو بے کے پریکٹیکل کاپی ون (پی سی ون ) کے مطابق پندرہ سال تک اس گرڈ کی مرمت پر 4 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہونے کی توقع ہے تاہم پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق یہ رقم بجلی فروخت ہونے سے ہی پیدا ہوگی اور حکومت کو الگ سے اس کیلئے پیسے ادا نہیں کرنے ہوں گے۔سولر پر کام کرنے والی امنہ شہاب کے مطابق جہاں ایک طرف اس کا فائدہ ہے تو دوسری جانب اس کا ٹرائیبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی ( ٹیسکو) کو نقصان بھی ہے کیونکہ کمرشل بجلی جس کا نرخ زیادہ ہے وہ ابھی ٹیسکو سے لینا بند ہوجائے گا ، اس گرڈ سسٹم کا مقامی لوگوں کو زیادہ فائدہ ہے اگر اس کی صیح طریقے سے میٹرنگ کردی گئی اور اس سے امدن بھی پیدا ہوتی ہے تو پھر اس کا مستقبل اچھا ہے اورزیادہ بجلی اگر حکومت کو فروخت نہیں کی جاتی تو پھر بجلی ضائع ہوگی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *