مالی بحران یا سیاسی انتقام: خیبرپختونخوا میں جامعات اراضی فروخت کا عملی آغاز

مالی بحران یا سیاسی انتقام: خیبرپختونخوا میں جامعات اراضی فروخت کا عملی آغاز

خیبر پختونخوا میں مالی مشکلات یا سیاسی انتقام، خیبر پختونخوا حکومت قانونی پیچیدگیوں اور ماہرین کی مخالفت کے باوجود جامعات کی اراضی فروخت کرنے پر بضد ہے۔ اس حوالے سے آزاد ڈیجیٹل خریداری سے فروخت تک تمام حقائق سامنے لایا ہے۔

ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے جامعات کی اراضی کو فروخت کرنے پر عملی کام بھی شروع کردیا ہے اور حکومت کی خواہش ہے کہ جلد از جلد جامعات کی اراضی کو فروخت کیا جائے اور سالوں سے جاری اراضی مالکان کے ساتھ تنازع ختم کیا جائے۔اس حوالے سے جب معلوم کیا گیا کہ جامعات کی اراضی کس قیمت پر فروخت کی جا رہی ہےَ؟ تو دستیاب دستاویزات کے مطابق حکومت نے جامعات کی اراضی فروخت کرنے کا ریٹ مقرر کردیا ہے۔عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی فی مرلہ زمین کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر کردی گئی ہے

مزید پڑھیں: گورنر خیبر پختونخوا کاوزیراعلیٰ کے مشیر کی تقرری کی منظوری سے انکار

۔زرعی یونیورسٹی مردان کی فی مرلہ زمین 20 لاکھ ،باچا خان یونیورسٹی کی فی مرلہ زمین 25 اور انجنئیرنگ یونیورسٹی مردان کی فی مرلہ زمین کو 20 لاکھ روپے میں خریدی جاسکتی ہے۔ دستاویزات کے مطابق مختلف کیمپسز میں زمین خریدنے کا الگ الگ نرخ مقرر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رہائشی اور کمرشل سرگرمیوں کے لیے بھی زمین کی خریداری کا الگ نرخ مقرر کیا گیا ہے۔ کمرشل سرگرمیوں کے لیے عبدالولی خان یونیورسٹی کی فی مرلہ زمین کی 35 سے 50 لاکھ روپے،زرعی یونیورسٹی کا 25 سے 35 لاکھ،باچا خان یونیورسٹی کا 35 سے 50 اور انجنئیرنگ یونیورسٹی کا 25 سے 35 لاکھ روپے مقرر ہے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا پولیس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر فاروق غنی ایس ڈی پی او بریکوٹ سرکل تعینات

مزید جامعات کی اراضی کس کے ہاتھوں فروخت کی جائے گی؟ اس حوالے سے آزاد ڈیجیٹل کے ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔اسی مالی مشکلات کے باعث جامعات کی اراضی کو فروخت کرنے کے فیصلے پر عملی طور پر عملدرآمد شروع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق جامعات کی اراضی کس طریقے سے فروخت کرکے پیسے جمع جائے کئے جائے۔ حکومت نے 12 ممبران پر مشتمل منسٹریل کمیٹی قائم کردی ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم ہونے والی اس کمیٹی نے باقاعدہ طور پر ہوم ورک شروع کردیا ہے۔دستاویزات کے مطابق 12 ممبران پر مشتمل کمیٹی کا سربراہ معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی مصدق عباسی کو مقرر کیا گیا ہے۔منسٹیریل کمیٹی میں وزیر صحت ،وزیر برائے اعلیٰ تعلیم،وزیر خوراک،کمشنر مردان مختلف محکموں کے سیکریٹریز اور جامعات کے وائس چانسلرز شامل ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی حکومت کا 2025 کے حج سیزن کے لیے ٹائم لائن کا اعلان

دستاویز کے مطابق اس کمیٹی کے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے گزشتہ اجلاس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اظہر رحیم کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر تجویز کردہ قانون بنائے اور وہ تجویز پیش کریں کہ کس طرح جامعات کی اراضی کو فروخت کیا جاسکتا ہے یا پھر اسے لیز پر دیا جاسکتا ہے۔انہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تجاویز تیار کرتے وقت تمام جامعات کی پرائیویسی کو راز میں رکھیں۔دستاویز کے مطابق کمیٹی کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ مردان نے باچا خان گریٹر ایجوکیشن کمپلیکس کی دوبارہ پیمائش کا عمل محکمہ ریونیو سٹاف کے تعاون سے مکمل کرلیا ہے اور باقاعدہ رپورٹ بھی جمع کردی ہے۔

مزید پڑھیں ارسا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش

جامعات کی اراضی فروخت کرنے پر کون ناراض ہے؟ اس حوالے سے آزاد ڈیجیٹل ذرائع کے مطابق ایم ٹی آئی مردان نے اپنے زمین کو فروخت کرنے کی مخالفت کی ہے اور کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ زمین فروخت کرنے سے ایم ٹی آئی مردان کا ماسٹر پلان شدید متاثر ہوسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق مخالفت کے باوجود بھی 12 ممبران کی قائم کمیٹی نے یونیورسٹی کے کئے گئے فیصلے پر دوبارہ نظر ثانی کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ اضافی اراضی کی نشاندہی کرکے اراضی کو فروخت نہ کرنی کی تجویز کو واپس لایا جائے۔ زرعی یونیورسٹی پشاور اور یو اے ٹی مردان نے بھی اپنے مسائل اور اعتراضات سنڈیکٹ میں رکھنے کی درخواست کی ہے اور ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ اس قیمتیں زمینوں کو فروخت نہ کیا جائے۔ذرائع کے مطابق کئی دیگر اقدامات اٹھا کر حکومت یہ قیمتی زمین فروخت کرنے سے بچا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ہمیں مولانا کی کل ضرورت تھی نہ آج ہے،بیرسٹر سیف

کس کس جامعہ کی اراضی کو فروخت کیا جارہا ہے اور یہ کب قائم ہوئی ہے؟اس حوالے سے ذرائع کے مطابق باچا خان گریٹر ایجوکیشن کمپلیکس کا قیام تقریبا 16 سال قبل یعنی 2008 میں کیا گیا ہے اس کمپلیکس کی کل اراضی 5 ہزار کنال ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے لیے 2 ہزار کنال اراضی خریدی گئی تھی۔باچا خان میڈیکل کالج کے لیے 1 ہزار، زرعی یونیورسٹی کی امیر محمد خان کیمپس کے لئے 2 ہزار کنال اراضی خریدی گئی تھی۔ اس وقت یعنی 2008 میں حکومت نے یہ اراضی 28 سو روپے فی مرلہ ریٹ کے حساب سے خریدی تھی۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں مالی بحران کے باوجود مختلف محکموں میں لاکھوں کی تنخواہوں پر کنسلٹنٹ تعنیات

یونیورسٹی کی اراضی کیوں فروخت کی جارہی ہے؟ اس حوالے سےجامعات کے لئے جب اراضی خریدی گئی تو اس وقت مالکان کو ادائیگی نہیں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت اراضی مالکان کو جو ادائیگی کی گئی وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت مالکان کا حکومت کے ذمہ 22 ارب روپے ہے۔اتنی زیادہ رقم کا بندوست کرنا حکومت کے لیے آسان نہیں اس لیے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جامعات کی ناقابل استعمال اراضی کو فروخت کرکے اس سے بقایاجات کی ادائیگی کی جائے گی یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر جامعات انتظامیہ نے اضافے زمینوں کی نشاہدہی کردی ہے اور اب حکومت کی قائم کمیٹی فیصلہ کریں گی کہ اسے فروخت کیا جائے یا لیز پر دیا جائے۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے اسلام آباد جلسے کیلئے پی ٹی آئی سپورٹرز کا شکریہ ادا کر دیا

جامعات کی اراضی کی قیمت کیوں بڑھی ہے؟اس حوالے سےحکومت کی غیر سنجیدہ رویے اور بروقت ادائیگی کا انتظام نہ کرنے کی وجہ سے مالکان کو 30 ہزار روپے فی مرلے کے حساب سے ادائیگی کی بجائے اب 1 لاکھ 50 ہزار روپے ادا کرنے ہونگے۔ ذرائع کے مطابق پہلے 30 ہزار روپے فی مرلہ ریٹ مقرر تھا جب مالکان عدالت گئے تو یہ قیمت بڑھ کر 45 ہزار روپے مقرر کردی گئی۔ جب ادائیگیوں میں تاخیر کیا گیا تو مالکان ایک بار پھر عدالت گئے اور پشاور ہائیکورٹ نے اس اراضی کی قیمت بڑھا کر 1 لاکھ 50 روپے فی مرلہ مقرر کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق اب یہ بقایاجات 22 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ذرائع کے مطابق ان اراضی کے 5 سے 6 ہزار مالکان ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد جلسہ، پی ٹی آئی قیادت کیخلاف تین مقدمات درج کر لیے گئے

جامعات کی اراضی کون فروخت کرسکتا ہے؟ ذرائع کے مطابق کسی بھی یونیورسٹی کی اراضی کو فروخت نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ یونیورسٹی کے ماسٹر پلان کو تبدیل کرکے اس میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے۔ماسٹر پلان میں مستقبل کے لیے مختص جگہ کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے جو 35 لاکھ مرلہ اور 7 کروڑ روپے کنال اراضی فروخت کرنے کا ریٹ مقرر کیا ہے۔جس کی منظوری پر غور کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: رکاوٹوں کےباوجود پی ٹی آئی کا 8ستمبرکاجلسہ شاندار رہا،علی محمد خان

جامعات کی فروخت پر وائس چانسلرز کا ردعمل کیا ہے؟ اس بارے میں ایک وائس چانسلر نے نام نہ بتانے کی شرط پر آزاد ڈیجیٹل کو بتایا ہے کہ سنڈیکیٹ کے پاس اختیار ہے کسی بھی جامعہ کی اراضی فروخت کرنے کا۔یہ اختیار وائس چانسلر کے پاس نہیں ہے اور سنڈیکیٹ نے اراضی فروخت کرنے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ جس پر حکومت اب جواب پیش کریگی کہ کس وجوہات کی بناء پر یہ اراضی فروخت کی جارہی ہے اس کے ساتھ دیگر سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ حکومتی جواب آنے پر اسے سنڈیکیٹ کے سامنے رکھا جائے گا اور پھر فیصلہ ہوگا۔

مزید پڑھیں: آہم قانون سازی کا معاملہ : وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کو عشائیہ پر مدعو کرلیا

کیا اراضی فروخت کرنا لازمی ہے؟ اس بارے بات کرتے ہوئے ذرائع کے مطابق کمیٹی میں شامل کچھ ماہرین نے یہ تجاویز بھی دی ہے کہ ان اراضی کو لیز پر دیا جائے ۔اس اقدام سے قرض بھی ختم ہو جائے گا اور جامعات کو کچھ وقت بعد اصل اراضی بھی مل جائے گی۔ اسی طرح یہ بھی غور کیا جارہا ہے کہ خیبر بینک سے قرض لایا جائے اور ہر بجٹ میں اس قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے جارہے کئے جائیں تو جامعات کی اراضی فروخت ہونے سے بچ جائے گی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *