آئی جی خیبر پختونخوا سے اختیارات واپس لینے کے پسِ پردہ حقائق سامنےآگئے

آئی جی خیبر پختونخوا سے اختیارات واپس لینے کے پسِ پردہ حقائق سامنےآگئے

خیبر پختونخوا حکومت اور بیوروکریسی نے پولیس ایکٹ 2017 میں ترامیم کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو بے اختیار بنادیا ہے اور اس کے پیچھے پولیس کئ جانب سے تحریکِ انصاف کے کارکنان اور قیادت کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کو بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق 9 مئی واقعات کے بعد تحریک انصاف رہنماؤں اور کارکنوں پر پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پر پارٹی کی مرکزی قائدین ،کابینہ ارکان، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور کارکنوں کا شدید دباوُتھا اور وہ بار بار پولیس آئی جی خیبر پختونخوا کو حاصل اختیارات واپس لینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ دوسری جانب پولیس کو حاصل اختیارات سے بیوروکریسی بھی ناخوش تھی اور وہ بھی پولیس کو کنٹرول میں لانے کیلئے سازشیں کرتے رہے۔ جس کے بعد حکومت نے پولیس ایکٹ 2017 میں ترمیم کرتے ہوئے آئی جی پی سےاختیارات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پانچ آئی پی پیز کے معاہدے ختم، بجلی قیمتوں میں کتنی بڑی کمی متوقع؟

حکومت نے پبلک سیفٹی کمیشن کوختم کرکے اس کی جگہ پولیس کمپلینٹ اتھارٹی فعال بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017 میں ترامیم کی منظوری دے دی۔کمپلینٹ اتھارٹی کس طریقہ کار کے تحت قائم ہوگی اس کو رولز میں وضع کیا جائے گا ،قانون میں آئی جی سے پولیسنگ پلاننگ کا اختیار بھی لیکر صوبائی کابینہ کو دیدیا گیا ہےتاہم آئی جی کے پاس صرف گریڈ 17 اور 18 کے پولیس افیسرزکے تبادلوں کااختیار ہوگا۔

مزید پڑھیں: سیاسی جماعتیں خیبرپختونخوامیں امن کیلئے متحد ہیں : بیرسٹر گوہر

ذرائع کے مطابق پولیس ایکٹ میں ترامیم کے بعد آئی جی کے پاس ڈسٹرکٹ پولیس افیسر کے علاوہ صرف گریڈ 18 تک تبادلوں کا اختیار ہوگا، کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ ، سپیشل برانچ، بم ڈسپوزل یونٹ، سپیشل سروسز یونٹ ، ایلیٹ فورس سمیت تمام ونگز کے سربراہان ، ریجنل پولیس افیسرز اور ڈی پی اوز کے تبادلوں سے قبل وزیراعلی کی منظوری سے مشروط کردی گئی، قانون کے مطابق آئی جی پی کے پاس پولیسنگ کیلئے پلان وضع کرنے کا بھی اختیار تھا اب وہ اختیار پولیس سےلیکر کابینہ کو دیدیا گیا ہے، ترامیم میں سیکشن 40 اے کو بھی شامل کیا گیا تھا جس کے تحت پولیس والوں کے خلاف نظرثانی کا اختیار سیکرٹری ہوم اینڈ ٹرائبل افئیرز کو دیا گیا تھا لیکن محکمہ قانون کی مخالفت کے باعث اس سیکشن کو ڈراپ کردیا گیا ، صوبے میں پبلک سیفٹی کمیشن پولیس ایکٹ کے قیام سے لیکر اب تک غیر فعال ہے اور پولیس اس کے فعال ہونے میں دلچسپی ہی نہیں لے رہی تھی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت نے پبلک سیفٹی کمیشن کو بھی ختم کرکے اس کی جگہ پولیس کمپلینٹ اتھارٹی فعال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم اس کا اختیار اور سٹرکچر کس طرح ہوگا اس کو رولز میں وضع کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: اعظم سواتی کی چودھری نثار کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت

کابینہ اجلاس میں موجود ایک افیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ اجلاس میں کابینہ ممبران پولیس ایکٹ میں ترامیم پر ایک پیج پر تھے اور آئی جی پی اس کا دفاع نہ کرسکے ، شروع میں چیف سیکرٹری نے بھی آئی جی پی کو سپورٹ کیا لیکن بعد میں وہ بھی دفاع کرنے سے دستبردار ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق پولیس ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے وزیراعلی ہاوس میں تیار کیا تھاجس کی محکمہ قانون سے منظوری بھی نہیں لی گئی جبکہ رولز اف بزنس کے مطابق محکمہ قانون سے منظوری ضروری ہے۔ کابینہ نے ترامیم کی منظوری دیدی لیکن اب اس کو محکمہ قانون سے منظور کیا جائے گا ، سابق دور حکومت میں بھی پولیس ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ تیار کیا گیا تھا لیکن عمران خان کی مخالفت کی وجہ سے اس میں ترامیم نہیں گئی تھی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *