وزارت داخلہ نے 26 نومبر کے حوالے سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر منظم پراپگینڈے کو بے نقاب کر دیا۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو وفاقی حکومت کو امن و امان ہر قیمت پر قائم رکھنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی قیادت سے رابطہ کرنے کا کہا تھا اور بیلاروس کے صدر اور چین کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورے کے پیش نظر پی ٹی آئی کو احتجاج موخر کرنے کی تجویز دی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی نے عدالتی احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں مظاہرہ کیا جو قانون کی خلاف ورزی تھی۔
مظاہرین کی پرتشدد کارروائیاں پر تشدد مظاہرین نے پشاور سے ریڈ زون تک مارچ کے دوران ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں پر حملے کیے۔ ان مظاہرین نے سڑکوں پر نصب رکاوٹیں ہٹا کر دوسرے شر پسند جتھوں کے لیے راستہ بنایا۔ مظاہرین نے اسلحہ، اسٹیل سلنگ شاٹس، سٹین گرنیڈ، آنسو گیس شیل، اور کیل جڑی لاٹھیوں کا استعمال کیا۔ پرتشدد مظاہروں میں خیبر پختونخواہ حکومت کے وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا اور تربیت یافتہ شر پسندوں اور غیر قانونی افغان شہریوں نے بھی حصہ لیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے اس مظاہرے کی قیادت مفرور اشتہاری مراد سعید کر رہے تھے، جن کی زیر قیادت 1500 شرپسندوں نے عسکریت پسندانہ حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے کیے۔ تین رینجرز اہلکاروں اور ایک پولیس اہلکار کو گاڑی چڑھا کر شہید کیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 232 اہلکار بھی زخمی ہوئے اور مظاہرین نے پولیس کی متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ وزارت داخلہ کے مطابق پاک فوج کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں پاک فوج کو تعینات کیا گیا تھا تاکہ اہم تنصیبات اور غیر ملکی سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم پاک فوج کا اس تشدد سے براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوااور نہ ہی وہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تعینات تھی۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز نے لائیو ایمونیشن کا استعمال نہیں کیا اور مظاہرین کے ساتھ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ایک منظم پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے، جس میں مبینہ ہلاکتوں کا الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جا رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے بڑے ہسپتالوں کی انتظامیہ نے ان ہلاکتوں کی رپورٹ کی تردید کی ہے۔ سوشل میڈیا پر پرانے اور AI سے تیار کردہ جھوٹے کلپس کا استعمال کیا جا رہا ہےاور کچھ غیر ملکی میڈیا عناصر بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر پاکستانی شہریوں کی حفاظت کی۔ وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے صوبائی اسمبلی میں اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے جبکہ پرتشدد مظاہرین سے 18 خودکار ہتھیاروں سمیت 39 مہلک ہتھیار برآمد ہوئے اور تین درجن سے زائد غیر ملکی اجرتی افراد پکڑے گئے۔ معاشی نقصان پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے ابتدائی تخمینے کے مطابق سینکڑوں ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ معیشت کو بالواسطہ نقصانات کا تخمینہ یومیہ 192 ارب روپے ہے۔
پاکستان بشمول خیبر پختونخواہ کے قابل فخر عوام اس قسم کی پرتشدد سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔ عوام بے بنیاد الزامات اور بد نیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم ملک میں امن و استحکام کی خواہش کے ساتھ یکجا کھڑی ہے۔