اسلام آباد: بانی چیئرمین کی پولیٹیکل کمیٹی کے رہنماؤں فیصل چودھری، سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر سے 2 دسمبر کو اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد پارٹی لیڈران کی میٹنگ میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، پارٹی رہنماؤں نے حیرت کا اظہار کیا کہ بانی چیئرمین کو کئی اہم معاملات کا پہلے سے علم تھا، جس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ ان کے ساتھ کوئی اندرونی طور پر رابطے میں ہے۔
ملاقات کے دوران بانی چیئرمین نے پارٹی قیادت سے مختلف معاملات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب احتجاج سنگجانی میں ہونا تھا تو اسے ڈی چوک کیوں منتقل کیا گیا؟ جلسے میں غیر قانونی افغان باشندوں اور جرائم پیشہ عناصر کو شرکت کی اجازت کیوں دی گئی؟
انہوں نے پنجاب کی قیادت پر بار بار دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا اور سوال کیا کہ انٹرنیشنل میڈیا کی ذمہ داری زلفی بخاری کو کیوں دی گئی، جو زمینی حقائق سے لاعلم ہے۔
بانی چیئرمین نے شدید ناراضگی ظاہر کی کہ بشریٰ بی بی کو ڈی چوک کیوں لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ پارٹی قیادت نے انہیں اسلام آباد ایڈمنسٹریشن کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا؟
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں تضاد نے پارٹی کا بیانیہ کمزور کر دیا۔ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد کے غیر مصدقہ اعداد و شمار سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہوئی۔
پارٹی رہنما شبلی فراز پر بھی شدید تنقید کی گئی کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ نمایاں عہدہ دیے جانے کے باوجود وہ فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔
ذرائع کے مطابق، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد اور اعجاز چوہدری پارٹی چھوڑنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں اہم فیصلوں میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بعض رہنماؤں کو اجلاس میں “بے غیرت” اور “بے حیا” جیسے سخت الفاظ کا سامنا کرنا پڑا۔
پارٹی کے اندرونی اختلافات اور رہنماؤں کی ناراضگی کے باعث تنظیمی ڈھانچہ شدید دباؤ کا شکار ہے، اور آنے والے دنوں میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں۔