ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ واقعہ ، تین ماہ بعد کرم جانے والے قافلے کی روانگی روک دی گئی

ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ واقعہ ، تین ماہ بعد کرم جانے والے قافلے کی روانگی روک دی گئی

ضلع کرم لوئر بگن میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے سرکاری کانوائے پر فائرنگ کے بعد کرم میں امداد کے لیے جانی والی گاڑیاں واپس ٹل کی جانب روانہ ہو گئیں۔

آج معاہدے کے تین ماہ بعد ٹل پاراچنار شاہراہ کھل گئی تھی، اور درجنوں ٹرکوں پر مشتمل پہلا قافلہ روانہ کر دیا گیا تھا۔ 75 سے زائد بڑی گاڑیوں پر مشتمل قافلہ سیکورٹی حصار میں کرم روانہ کیا گیا تھا، جس میں 22 ویلر، 10 ویلر اور 6 ویلر ٹرکس شامل تھے۔ گاڑیوں میں ادویات، گیس سلنڈرز اور دیگر ضروری سامان موجود تھا۔

تاہم امن مخالف مسلح افراد نے آج صبح سرکاری گاڑیوں کے کانوائے پر حملہ کر دیا جس میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت دو ایف سی اہلکار رفع اللہ، رضوان اور پولیس اہلکار میثال خان زخمی ہو گئے۔

مقامی ذرائع کے مطابق کرم میں امن مخالف عناصر کی فائرنگ کے بعد ڈپٹی کمشنر سمیت زخمی اہلکاروں کو طبی امداد کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر جاری ہونے والی ویڈیوز اور مقامی ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر کو کرم میں داخلے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے دھمکیاں دی گئی تھیں، لیکن ضلعی انتظامیہ نے جان لیوا دھمکی کو نظرانداز کرتے ہوئے آج ضلع کرم میں امداد کے لیے جانی والے قافلے کا راستہ کھولنے کے لیے بگن پہنچے، جہاں نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔

کرم کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہر بار ضلع کرم کے عمائدین کے ساتھ امن و امان کے حوالے سے مذاکرات کیے گئے ہیں، اور امن کو خراب کرنے اور فسادات پھیلانے والوں کے خلاف 12 کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں کرم امن معاہدے پر دستخط بھی کیے گئے، مگر ضلع کرم میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کرم میں امن نہیں چاہتے۔

اس سلسلے میں ہم نے ضلع کرم کے سکیورٹی اداروں کے افسر سے بات کی تو انہوں نے آزاد ڈیجیٹل کو بتایا کہ ضلع کرم میں اشیاء خرد و نوش، ادویات، گیس اور دیگر اشیاء لانے والوں کے لیے بدقسمتی سے راستے بند ہو چکے ہیں۔

بچوں اور بچیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ امن و امان کے قیام کے لیے ضلع کرم کو اسلحہ سے پاک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے امن معاہدے کے ایک نکات میں تحریر کیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اسلحہ حکومت کے حوالے کیا جائے گا، لیکن بدقسمتی سے دو روز بعد ہی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے۔

سکیورٹی آفیسر نے بتایا کہ صوبائی حکومت کو اس قسم کے شدت پسندانہ واقعات سے نمٹنے کے لیے سخت فیصلے اور اقدامات اٹھانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، علی امین گنڈا پور نے کرم کے علاقے بگن میں سرکاری گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے واقعہ کو کرم میں امن کے لیے حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ اور مذموم کوشش قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ عناصر کرم میں امن کی بحالی نہیں چاہتے۔

وزیر اعلیٰ نے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے فائرنگ میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مطابق ضلع کرم میں فریقین کے درمیان معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرم کے لوگ پرامن ہیں اور وہ علاقے میں امن چاہتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے ضلع کرم کی عوام سے اپیل کی ہے کہ ان عناصر کی نشاندہی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *