اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت جاری ہے، جس میں جسٹس مسرت ہلالی نے اہم ریمارکس دیے کہ جو افسر کورٹ میں ٹرائل چلاتا ہے وہ خود فیصلہ نہیں سناتا۔ سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھے، جس پر جسٹس ہلالی نے سوال اٹھایا کہ اگر مقدمہ کسی اور افسر نے سنا ہے تو سزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کیسے کر سکتا ہے جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے اور وکلا سے وضاحت طلب کی کہ کیا ملٹری افسر اتنے تجربہ کار ہوتے ہیں کہ سزائے موت تک سناتے ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے اور آرمی ایکٹ ایک سپیشل قانون ہے جس میں شواہد اور ٹرائل کے طریقے مختلف ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے وضاحت طلب کی کہ فوجی عدالتوں میں فیصلہ کون لکھتا ہے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جج ایڈووکیٹ جنرل کی برانچ کی معاونت حاصل کی جاتی ہے۔ انہوں نے امریکہ میں فوجی ٹرائلز کی مثال بھی دی، جس پر جسٹس ہلالی نے استفسار کیا کہ امریکہ میں ایسے ٹرائلز میں جج کون ہوتا ہے؟
اس کے علاوہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عدالت میں صرف تین مقدمات پیش کیے گئے ہیں اور مجموعی طور پر 9 مئی کی 35 ایف آئی آرز اور 5 ہزار ملزمان ہیں، جن میں سے فوجی عدالتوں میں صرف 105 افراد کا ٹرائل کیا گیا۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کا ٹرائل بھی فوجی عدالت میں کیا گیا تھا اور عالمی عدالت انصاف نے بھی فوجی عدالت کو تسلیم کیا تھا۔ سماعت کے اختتام پر فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت 13 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔